»ناچ میرے بلبل تجھے پیسہ ملے گا«
پاکستان میں رہنے بسنے والے عموماً پولیس ،بھتہ گروپ کے بعدجن گروہ یا گروپ سے پریشان ہوتے ہیں وہ ہے چندہ گروپ اور بھیک مانگنے والی۔ جب ہم پاکستان میں تھے تو ان پیشہ ورگداگروں کے بھیک مانگنے کے مختلف طریقہ دیکھا کرتے تھے ۔ جن میں کسی عجیب الخلقت بچے یا بچی کو یہود و نصاری ٰ کے ممالک میں ناپید لیکن ہمارے یہاں باقاعدہ صنعت کی حیثیت رکھنے والے بیماری جس کی وجہ سے ہاتھ پیر کا خطرناک طریقے سے مخالف سمتوں میں ہو جانا کمرمیں اونٹ کی طرح کُب نکل جانا شامل ہوتا تھا ان عجیب الخلقت بچے بچیوں کی اچھی خا صی تعداد عمو ماً صدر کراچی یا شہر کے مصروف ترین علاقوں میںبھیک مانگتی دیکھی جاسکتی تھیں۔اس وقت کے فقیر اچھے سلجھے ہوئے فقراء ہوتے تھے جن میں کچھ وضع داری ہو ا کرتی تھی اپنی حیثیت و اوقات کو اچھی طرح سمجھتے تھے اس لیے یہ حد سے تجاوز نہیں کیا کرتے تھے ۔ اب تو بھیک مانگنا باقاعدہ پیشہ اور فن کی شکل اختیار کر چکا ہے فقیر وبا کی طرح ملک کے ہر مصروف علاقوں میں شرم غیرت کی قید سے آزاد پویس یا وغیرہ وغیرہ کی سرپرستی میں دندناتے پھرتے ہیں۔پہلے اورآج کے گدا گروں کی ایک قدر مشترک تھی اور وہ آج بھی چھوٹی موٹی ترمیم ،مذہبی گلو گاری کے نفاذ کے بعد اسی طرح قائم ہے کہ یہ ہر حالت میں اللہ رسول ؐ کے واسطے زبانی یا تحریری دیا کرتے تھی۔ ان میں سے کچھ تو باقاعدہ علم و حکمت کی اداکاریوں کے بھی ماہر تھے آج وہ کہیں علامہ،شیخ،پیر وغیر کی دستار بندی کروا کر شیطان ثانی بنے گدا گر ٹریننگ سینٹر میں شاگردوں کواپنی ریاکارانہ مکارانہ ،عیارانہ خود ساختہ مذہبی گداگری کے اسرار و رموز سکھا رہے ہوںگی۔ اللہ و رسول ؐ کے نام پر گدا گری کرنے والوں سے ملتی جلتی ایک اور بیماری بھی ہے جو کہ مذہبی حوالوں ،دیومالائی داستانوں مذہبی گلوکاریوں ،تماش بینی حرکات وسکنات کے ساتھ زہر کی طرح ہماری گلی کوچوں میں بنام مذہب بنام ِ مسلک ، بنام ِ مذہبی تحریک پھیل رہی ہی۔ ان میں اور پہلے والوں میں بہت سے کشف و کمالات ،کرشمی، خواب بشارتیں ، کام اور طریقے میں بس اتنا ہی فرق ہے جیسا کہ خسرہ اور پولیو۔ کوئی پھوڑے پھنسی نکال دیتا ہے کوئی معذور کر دیتا ہی۔ مانگتے تو دونوں ہی اللہ کے نام پر ہیں لیکن نا دینے کی صورت میں دونوں کی طرف سے دنیا و آخرت کے دردناک و دہشت ناک عذاب سے ڈرایا جاتاہے یا جس بد تمیزی جہالت ،کا سامنا کر نا پڑتا ہے وہ کوئی بھی شریف النفس کمزور انسان برداشت نہیں کر سکتا ۔ پہلے والا فقیر عجیب الخلقت بچے دیکھا کر مانگتا ہے ۔ دوسرا مذہبی فقیر ، جنت دوزخ کے دروغا وں سے قریبی مراسم بتا اور جتا کر مانگتا ہے ۔ پہلے والا فقیر ملک میں بین الصوبائی نیٹ ورک رکھتا ہے ۔دوسرا والا اُس سے دو ہاتھ آگے بین الاقوامی سطح پر ڈھٹائی سے اپنا نیٹ ورک چلا رہا ہوتا ہی۔ ہم دوسر ے والے فقراء پر پہلے والے گدا گروں کے طریقہ واردارت کی کاپی اینڈ پیسٹ کے سہارے کچھ اُلٹی سیدھی گفت و شنید کریں گی۔ پہلے والے فقیر وں کے کسی فرزند ارجمند ،دختر نیک اختر ،نے وکالت ،ڈا کٹریٹ ، نفسیات ، مذہبی اسکالر شپ وغیرہ وغیرہ شائد کی ہوگی لیکن ہمیں کوئی خا ص معلومات نہیں ملتیں تاریخ یہاں اس لیے خاموش ہے کہ پہلے والے فقیر بھیک کو بھیک کی طرح ہی مانگتے تھے اور مانگتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف والے خوش خوراک ، خوش لباس، خوش بیان لوگ ڈھٹائی سے یہ بتا رہے ہوتے ہیں (یو ٹیوب فروری 2013 ئ)کہ یہ جو میرے برابر میں سلطنت قادریہ کے شہزادے بیٹھیں ہیں یہ فلا ں فلاں یہود و نصا ری کے دیس سے بہت اعلی سندیں لے کر تم جیسے جاہل پیٹ پر پتھر باندھی عوام کے درمیان تبرکا ً رکھے گئے ہیں۔ میرے بیٹیاں، بہوئیں ،سب یہود و نصاریٰ کے انتہائی عظیم تعلیمی اداروں سے فار غ التحصیل ہیں یا ابھی فارغ ہونے والی ہیں۔سوال یہ ہے کہ جس ملک میں 70 لاکھ سے زائد بچے پرائمری تعلیم سے محروم ہیں بلکہ دنیا میں جتنے بچے اس وقت پرائمری تعلیم سے محروم ہیں ان کی تعداد کا تقریباً دس فیصد تعداد ہمارے ملک میں ہو۔ ، شدت پسندوں کے حملوں کی وجہ سے صرف صوبہ پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں 800 اسکول بند ہوچکے ہیں دوسرے صوبوں یا شہروں گاؤں گوٹھوں کے اسکولوں میں بندھے ڈھور ڈنگر یا گھوسٹ اسکول کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہی، سوا دو کروڑ بچے اسکول نہیں جاسکتی، جس ملک میںکروڑ 70 لاکھ کے لگ بھگ لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہوں۔ سیلاب بارش، قدرتی آفات ،مہنگائی ،کرپشن دہشت گردی ،لسانی،مذہبی فرقہ واریت کی جنگوں،آئے دن کے احتجاج کی وجہ سے کاروباری بندش و نقصانات نے غریبوں کی کمر توڑ رکھی ہے ملک میں 35 اضلاع کے باشندے غذائی قحط سالی کا شکار ہیں۔جس ملک میں بیروزگاری 15.4 فیصد ہو جس ملک کے معاشی حب کراچی میں روزانہ 22سے 23 لاوارث لاشیں ملتی ہوں یعنی سالانہ آٹھ ہزار چار ایسی لاشیں ملتی ہوں جن کا کوئی دعویدار ہی نہیں ہوتا ان کی قبر پر نام کی جگہ نمبر ہوتاہو۔ جس ملک میں 60فیصد خواتین مرادانہ تشددکا شکار ہوں جن میں اکثریت شادی شدہ ہے یعنی دنیا میں خلیفہ گیری کے شو قین قواموں کی زیر سایہ حوا کی بیٹی اپنی بے بسی کا رونا رورہی ہو۔ 24 گھنٹے میں 13 سے زائدحوا کی بیٹیاں جن کی عمر تین سال سے پچاس سال ہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہوں۔ عورتوں کو ننگا کر کے گھومایا جاتا ہو خو د ساختہ پنچائتی فیصلے پر اجتماعی زیادتی ہوتی ہو،مرنے کے بعد بھی قبروں تک کو اُکھاڑ کر خواتین کی بے حرمتی کیجاتی ہو۔ قبروں کی بے حرمتی کرکے مُردوں کی ہڈیاں تک بیچی جارہی ہوں۔ جس ملک میں 6 ملین لڑکیاں الٹرا ساونڈ کی وجہ سے پیدا ہی نہیں ہونے دی جاتیں ہوں ۔ صرف 2012 ء میں مدد گار ہیلپ لائن کے ڈیٹا بیس کی رپورٹ کے مطابق 9011 خوا تین کو قتل کیا گیا( جوکہ اصل واقعہ کا عشر و عشیر ہی)۔ جس ملک میں پانچ سے چودہ سال کے 83 فیصد بچے چائلڈ لیبر فورس کا حصہ ہوں ،جس ملک کا پیدا ہونے والا ہر بچہ قرض دار ہو ہر سال چھ ہزار سے زائد افراد خودکشی کررہے ہوں ۔اس ملک کا مذہبی گلوکاری کرنے والا ، اللہ و رسول ؐ کے نام پر مانگ مانگ کرگزاراہ کرنے والا طبقہ اتنا خوشحال کیوں اور کیسے ..؟کہ نا صرف وہ بلکہ اس کے تمام مسکینی دنیا کے 90 مما لک میں سلطنتِ قادریہ قائم کرنے میں رات دن بنام مذہب مسلمانوں پر خوش خوراکی ِ،خوش لباسی میں ملبوس جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیںبلکہ قادریہ سلطنت کے شہزادے شہزادیاں و بہویں اعلیٰ تعلیم حا صل کررہی ہیں اس ملک میں جہاں خواتین مردانہ تشدد کا شکار ہوں بلکہ پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دی جائیں ۔ کئی خواتین زندہ درگور کردی جائیں۔ یہ 90 ممالک کو اسلام سکھانے والے خود ساختہ امن کے سفیر کس منہ سے یہود و نصاری کے ممالک میں جائز ناجائز طریقے سے نا صرف نیشنلٹی لے لیتے ہیں بلکہ پاسپورٹ تک ہتھیا لیتے ہیں۔ جب کہ ان کا اپنا ملک اپنی جنم بھومی اپنا شہر اپنا صوبہ اور اس کے قرب وجوار میں موت رقص کررہی ہی، قریہ و بازار لٹیروں کے حوالے ہیں۔ یہ 90 ممالک میں اسلام سکھانے والے شرم سے مر کیوں نہیںجاتے کہ جب انھیں یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے شہروں ، گاؤں گوٹھوں، گلیوں محلوں میں قتل ڈکیتی، اجتمای زیادتی،خواتین زندہ درگور ،بچیوں تک کوجنسی زیادتی و گولیوں کا نشانہ بنانے کا کھیل کھیلا جارہا ہے عبادت گاہیں،حتیٰ کہ جنازے اور قبریں تک محفوظ نہیں۔ بلوچستان یا خیبرپختونخواہ میں پانچ سالوں میں ایک ہزار سے زائد عمائدین ماردیئے گئے ہوں بلکہ آج (9 فروری 2013 ء کو)بھی لواحقین مسلکی جنگ میں شہید ہونے والوں کی 90 لاشوں جن میں 18 خواتین اور 11 بچے شامل ہیں کے ساتھ احتجاج کر رہے ہیں کہ ان کے قاتلوں کو عبرت ناک سزاد ی جائے ۔بیماریوں ، سی این جی سلنڈر وںکے پھٹنے ، جعلی ادویات کے استعمال ،جعلی شرابوں کے پینے ،منشیات کے استعمال کرنے ، بجلی کے شارٹ سرکٹ ،ڈرورن حملوں سے مرنے والوں کی تعدادنے بھی کوئی سلمانی ٹوپی نہیں پہنی ہوئی ۔ سوال ان مانگنے والوں سے یہ بھی ہے کہ یہ جو اپنی اولاد کو اعلی تعلیم دلانے کا تکبرانہ دعویٰ کر رہے ہیں کیا ان کی کوئی اتفاق ، یا اختلاف فاونڈری ہی…؟ کوئی سینما ہاؤس ہیں..؟ کیا ان کے عجیب و غریب شہزادوں کی تعلیم بلکہ انتہائی مہنگی تعلیم ان کی اپنی محنت سے ہوئی … ؟ ان کے پاس ان کی تعلیم و تربیت ان کی ملکی و غیر ملکی رہائش پر جو خر چ ہے وہ کیا ان کی کسی اپنی فیکٹر ی یا کارخانے نے کی ہی..؟ یا کسی سینما ہاؤس کی مرہون منت ہی… ؟۔ ایسا کیا ہے کہ گھر پیر کااصلی گھی کے چراغو ں سے ہے روشن اور دوا کے واسطے مزدور کا بچہ سسکتا ہے سیلاب زدہ گان کے لیے ریلیف کیمپ مظفر گڑھ میں ننھی سمعیہ دودھ کی دو بوندوں کے لیے ترستی بھوک سے مر جاتی ہی۔ ۔ کاش ملالہ کی جگہ تمہاری کوئی بہن بیٹی ہوتی۔کاش مختاراں مائی کی جگہ تمہارے گھر کی کوئی خاتون ہوتی کاش سیالکوٹ کے منیب و مغیث تمہارے گھر کے فرد ہوتے ۔ کاش پولیو کے قطرے پلانے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتارے جانے والی غریب مرد وخواتین سے تمہارا کوئی قریبی رشتہ ہوتا، کاش کوئٹہ کی مسلکی جنگ میں شہید ہونے والوں میں تمہارا کو ئی پیارا ہوتا ، کاش سوات بونیر دیر مالا کنڈ سے ہجرت کرنے والوں میںتمہاری بہن ، بیٹی داماد و نواسے یا پوتے پوتیاں ہوتیں، کاش کراچی میں فرقہ وارانہ ،لسانی تشددد میں بے گناہ مارے جانے والوں میں تہمارا کوئی اپنا ہوتا۔ 90 ممالک میں مذہب پھیلانے کے نام پر مذہب کو ضائع کرنے والوں تمہاری ضرورت ان دنیا کی سہولیات سے آراستہ ،تہذہب و تمدن سکھانے والے ملکوں یا وہاں کے رہنے والوں کو نہیں ہم جیسے جاہل ،اجڈ گنوا ر کہلانے والوں چن چن کر بنام مذہب ، بنام ملت، بنام مسلک اپنے ہی ہم کلمہ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والوں کو تھی اور ہی۔ ان پیشہ ور فقیروں کی طرح مقدس آیات و کلمات کا سہارا لے کر دینا کے بہترین 90ممالک میںمذہب کے نام پر سلطنت قادریہ وغیرہ بنانے والوں ،ہر مانگنے والا عاجز ہوتا ہے اُس کو اپنی حیثیت و اوقات میں ہی رہنا چاہیے ۔ عوام سے مذہب کے نام پر ان کے زیورات و مال و دولت بہن بیٹی کی چوڑیاں و کنگن اتروانے والو مانگ کر گزارا کرنے والو یہ رقم لوگوں نے کسی سلطنت کے قیام کے لیے نہیں بلکہ امن و امان کے لیے مذہبی روداری سیکھنے کے لیے اللہ کے دین کی سر بلندی اس کے قوانین کو اپنے ملک ،شہر گلی کوچوں میں نافذ کرنے کے لیے دی تھی ہماری جہالت پر حکمرانی کرنے والوںتم ہماری مقدس شخصیات کا دن کیا مناؤ گے تمہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کی تم جن کے شریف مناتے ہو ان کی قبر اُکھاڑ کر ان کی ہڈیاں بھی دریا برد کر دی گئی تھیں۔ میرے نبی ؐ کے نام پر لمبی عمارتیں تعمیر کرنے والوں پہلے صادق و امین کا مطلب سیکھو کاش کہ تم نے صحابی رسول ؐ کے لیے جہنم کے دو انگارے رکھے جانے ، رسول ؐکے خا ص غلام کو جنت میں جانے سے ایک بوٹے دار کمبل کی وجہ سے روکے جانے کی احادیث سے سبق لیا ہوتا۔اللہ کے ماننے والے نبی ؐ کو پہچاننے والے مانگی ہوئی دولت پر اپنے اہل و عیال کو اعلی تعلیم دلوا کر اس غریب پیٹ پر پتھر باندھی عوام کا مذاق نہیں اُڑاتے جہاں غریب بہن بیٹی کے سر پر چادر نا ہو وہاں رہبر و رہنما 80 لاکھ روپے کے کوٹ ،دنیا کی مہنگی ٹو پیاں زرک برق جبے و عمامے نہیں پہنتی۔ تصوف کے نام پر مذہبی رنگیلے نہیں بنتی۔ جس کے اپنے ملک میں آئے دن آ گ و خون کی ہولی کھیلی جاتی ہو وہ 90 ممالک میں ہمارا مذہب پیارا مذہب راج دلارا مذہب پر امن مذہب کی گردان نہیں کیا کرتے ۔’’ یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار ‘‘
(جاری ہے