تحریر ظہیر دانش :
جاپان میں مذہبی ،سیاسی سماجی شخصیات مقیم ہیں وقتا ً فوقتا ًدوسرے اسلامی ممالک سے اور خصو صاً پاکستان سے بھی محترم شخصیات یا ان کے اہل و عیال جاپانی ینوں کی ریل پیل ، چندوں کی بہتات ، ہدیوں کی بہاریں دیکھ کر رونق افروز ہوتے رہتے ہیں۔
اس کے باوجود دل ہے کہ مانتا نہیں۔
مغربی ممالک یا عرف عام میں یہود و نصاریٰ ،یا یہود و ہنود کی طرف سے ہمیں دی گئی بنیادی سہولیات اپنی عوام یا قوم کے برابر دیئے گئے حقوق ،انسانیت کے لیے ہم سے بہتر رویے ،سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم اپنے محسن ممالک میں اپنے مخصوص ڈین این اے سے مجبور ہوکر اپنی سیاسی ،سماجی ،مذہبی احساس کمتریوں یا احساس محرومیوں کو خود ساختہ مقدس نام و مقدس القاب دے کر سیاسی ، سماجی ، مذہبی میدان میں دیو مالائی حکائتوں کے بل پر زبان درازی اور ہاتھ صفائی شروع کر دیتے ہیں ۔
جس کی ہمیں نہ تو کوئی تمیز ہوتی ہے اور نہ ان معاملات میں ہماری کوئی اچھی تربیت ہوتی ہے اور نہ ہی ہم اس کے قابل ہوتے ہیں لیکن خلیفہ گیری کے شوق میں مقدس القاب و خطابات کے بل پر جاہل ، گنوار ، چرب زبان کو ئی بھی شخص عالم بن کر ہم عوام پر مسلط ہونا اپنے لیے باعث سعادت اور فرض اولین سمجھتا ہے۔ آج بھی یہ چندہ خور برگزیدہ طبقہ ہم عوام پر کسی نہ کسی حوالے سے مسلط ہونے کے لیے مقدس ناموں ،مقدس اداروں کی صورت میں مخصوص طریقہ واردات کے ذریعے اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔
یہاں جاپان میں ہمیں مالک کائنات نے سیاسی ، سماجی ،مذہبی روایتی لوازمات کے ساتھ سب کچھ دے رکھا ہے ۔
لیکن نہ جانے کیوں انتہائی اہم رکن مزارات سے ہم ابھی تک محروم ہیں۔
جاپان میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو صرف مقدس مزارات کی ہے۔
راستے میں آتے جاتے جاپانیوں کی درگاہوں کو حسرت سے دیکھ دیکھ کر آنکھیں سیکنے کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔
اس کمی کو پورا کرنا کوئی بڑا مسئلہ تو نہیں لیکن تقریباً کوئی بھی شخص اس یہود و ہنود کی سرزمین پر ان کی خواتین ہتھیانے اور منہ بھر بھر کر کھانے کمانے کے باوجود ان کی زمین میں دفن ہونا ہی نہیں چاہتا تو پھر اب مزارات کے لیے لازمی شرط سید بزرگ کہاں سے لائیں۔۔۔؟
اب مزاروں والی شخصیات بارشوں میں آسمان سے ٹپکنے سے تو رہیں۔
اس لیے اس عظیم سعادت کے لیے فل حال دُعاوں کے علاوہ چارہ بھی نہیں جو ہم بھی کرتے ہیں آپ بھی کریں۔
مذہبی رومانس کا آتش شوق مذہبی موشگافیوں ،مذہبی گلوکاریوں، خوش الحانی کے نام پر مذہبی مہدی حسن پیدا کرنے تک ہی رہتا توبھی غنیمت تھا لیکن چشم بدور اب پیدائشی مسلمانو ں کا روائتی مسئلہ یہ بھی ہوگیا کہ جاپان میں مسلمانوں کے مذہبی تہوار خصو صاً عیدین کی نمازوں پر اختلاف اب گروپ یا گروہ بندی تک آپہونچا ۔
عیدین کی نمازوں پر چاند نظر آنے یا نظر نہ آنے پر شائد کچھ اختلاف رہا ہو لیکن کم از کم پاکستانیوں نے جاپان کے ہر پریفکچر میں ہمیشہ ایک ہی دن عیدین کی نماز ادا کیں ۔
کئی سالوں سے جب جاپان میں غیر قانونی مقیم پاکستانیوں کی تعداد کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر پارکوں ، کرائے پر لیے گئے ہالوں میں نمازیں ادا کرتا تھا اس وقت بھی تقریبا ً چاند کی منہ دکھائی کی رسم اور اس کا اعلان ٹوکیو مسجد کی طرف سے ہوا کرتا تھا۔
جاپان کے ہر پریفیکچر میں رہنے والے پاکستانی کی نگاہیں اور کان ٹوکیو مسجد کی طرف سے چاند کے نظر آنے کے اعلان پر لگے ہوتے تھے۔ محدود ذرائع ابلاغ کے باوجود کسی نہ کسی حوالے سے چاند کے نظر آنے اور عیدین کی نمازیں ادا کرنے کے اوقات اور جگہ کا معلوم ہو ہی جاتا تھا۔
لیکن جوں جوں سات آٹھ سو ین فی گھنٹے پر کمانے والے پیدائشی مسلمانوں کو جب جائز و ناجائز طریقے سے حا صل کیئے گئے ویزے اور بینکوں سے کئی کئی سو مان ین ملنا شروع ہوئے تو پھر شہرت کے شو قین خلیفہ گیروں کو یاد آیا کہ وہ تو اس زمین پر بغیر فساد کیے زندہ رہ ہی نہیں سکتے ۔
جو چیزیں پہلے جائز تھیں ایک دوسرے کو مذہبی اختلاف کے باوجود برداشت کیا جارہا تھا ، اچانک پرمٹ ریذیڈینس یا لمبے ویزے بینکوں سے لیے گئے کئی کئی کروڑ ینوں کی گرمی کے بعد وہ خلوص محبت ،مذہبی رواداریاں قصہ پارینہ ہوگئیں۔
دیکھتے ہی دیکھتے اچانک جانے کیا ہو گیا زمانے کو کہ غیر قانونی مقیم پاکستانیوں کو کام پر لگا کر اس سے کمیشن کھانے والے، ہر جاپانی کو سانچو سمجھنے والے ، اپنے ہی ہم وطنوں کو لو ٹنے والے اچانک سیاسی ، سماجی ، مذہبی غلاف میں اپنے آپ کو لپیٹے عبادت گاہیں قائم کرنے کے نام پر ایک دوسرے سے بازی لے جانے لگے۔
ان کے سیاسی ، سماجی مذہبی یونیفارم وکلام (ممخصوص رٹے)میں کردار کے علاوہ وہ کچھ نظر آنے لگا جو کہ ہمارے روایتی سیاسی ، سماجی ، مذہبی جغادریوں کی ٹول کٹ میں ہمیشہ سے رہا ہے وہ وہ سیاسی سماجی مذہبی کیٹ واک دیکھنے کو ملی کہ الامان والحفیظ۔ عبادت گاہیں لنگروں سے پہچانے جانے لگیں۔
ہر عبادت گاہ کے مینوسے پتہ لگتا تھا کہ کس عبادت گاہ کی زمین چندہ ،ہدیہ ، یا وغیرہ وغیرہ سے سر سبز و شاداب ہے۔ ایک سے ایک باکمال جاہلانہ کلام یا چرب زبانی کو کھانے کے مینو نے چھپا لیا۔
مفتے کی بہتات نے ہر قسم کے اجتماع کے لیے آسان نرخ پر افرادی قوت بھی عطا فرما دی۔
ہر قسم کی سیاسی سماجی مذہبی کیٹ واک کی مشہوری کی خدمات ہماری مقامی نیٹوں کے پیٹی بند بھائیوں نے سنبھال لیں بس پھر کیا تھا ہٹو بچو کی صدا ئیں تھیں اور ہم تھے دوستوں ۔
آج جب دینا چاند پر قیام و طعام کی فکر کر رہی ہے اور ہم ہیں کہ آج بھی چاند کے نظر آنے اور نہ آنے پر جھگڑ رہے ہیں۔
یہ مسئلہ اگر عالموں ، زاہدوں ، متقیو ںکی سر زمین تک ہی رہتا تو بھی کوئی بات نہ تھی۔
لیکن افسوس ناک خبر یہ ہے کہ ْ جاپان تک چلے آئے ہیں نقابوں والے ٗ جاپان میں ہم نے اکتوبر دوہزار تیرہ (2013 ) کی عید الفطر اور عید الضحیٰ سے پہلے کبھی عیدین کی نمازیں دو مختلف دنوں میں ہوتے ہوئے نہیں دیکھیں ۔شائد پہلی مرتبہ کم از کم پاکستانیوں میں یہ روایت قائم ہوئی کہ ٹو کیو رویت ہلال کمیٹی کی طرف سے اعلان کے باوجود عید الفطر اور عید الضحیٰ کی نمازیں دو مختلف دنوں میں پڑھائی گئیں۔
اور آئندہ کے لیے پر تولے جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے )