معزز بزرگوں اور دوستوں کے ساتھ عموما ً اس قسم کے ہنگامی اتحاد میں مذہبی سفاری پارک کی وہ مخلوقیں بھی شامل ہوجاتی ہیں جو کسی نہ کسی ذرائع سے حا صل کی گئیں کتابوں کی نقل کر کے ،اپنے کر توتوں کو مقدس غلافوں میں لپیٹے ،ہم جیسے کم علموں کو مائک کے بغیر خود ساختہ مذہبی ‘‘ کھرا اوکے ‘‘ کی مشق کرتے نظر آتے ہیں۔ شہرت کی ہوس ان نقل مارکہ اسکالروں، رٹے باز وں کو کسی نارمل انسان کی طرح چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتی ۔ ہر قسم کی تقریب میں یہ میاں مٹھو اسٹیج پر سب سے نمایاں جگہ بیٹھنے سے کم چیز پر راضی ہی نہیں ہوتے۔ یہ لوگ اپنے مخصو س رٹوں کے بل پر ہم (کم علم عوام ) پر مسلط ہونا چاہتے ہیں۔ رٹوں کے ماہر اورنقل مارکہ
خود ساختہ اسکالر وں کی گردن کا سریا ہے کہ خم ہونے کانام ہی نہیں لیتا۔ ان جیسوں کی وجہ سے ہر چالیس گزکے بعد ایک عالیشان عبادت گاہ اور تمام مسلم ملکوں میں یونیور سٹیوں کی مجموعی تعداد صرف 500ہے یعنی تقریبا تیس لاکھ مسلمانوں کے لیے ایک یونیور سٹی۔ اس لیے ہمارے جلیل القدر لوگ عالم رویا میں تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر ، اسکالرز کہلاتے ہیں۔ ہمارے درمیان سائنس دانوں ، محققین کی تعداد کم ، اور مخصوص رنگ برنگی حلیوں والوں کے غول کے غول مملکت خدا داد کے ہر گلی محلہ قصبے شہر میں دندناتے پھرتے ہیں۔ دن بدن جو ںجوں ان مقدس مخلوقوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، کوئی مسجد ،امام بارگاہ ، مزار، مندر ،چرچ ، ہسپتال، جنازے محفوظ نہیں، ہر گلی ،محلہ ، شہر ، صوبہ کی ` ` دھرتی لہو منگدی اے ‘ ‘ ۔ آج جب یہود و نصاریٰ کی سازش سے دنیا چاند پر قیام و طعام کی تیاری کر رہی ہے۔ ہم آج بھی جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں اس چاند کے دیدار پر جھگڑرہے ہیں۔ تمام مسلم ملکوں میں یونیور سٹیوں کی مجموعی تعداد تقریبا 500 ہے۔ امریکہ میں دس لاکھ لوگوں پر چار ہزار سائنس دان ، جاپان میں دس لاکھ لوگوں پر پانچ ہزار سائنس دان ، مسلم ممالک میں ہر دس لاکھ مسلمانوں پر صرف دو سو تیس 230 سائنس دان اور 30 لاکھ مسلمانوں کے لیے محض ایک یونیور سٹی۔ چاند پر پہونچ کر اس کو اسلامی بنانا تو دور اس تک پہونچنے کے لیے چاند گاڑی کے ٹائر بنانے سے بھی قا صر ہم لوگ زبانی موشگافیوں، رٹی رٹائی باتوں، دیو مالائی داستانوں کے بل پر پوری دنیا میں خلیفہ گیری کا خواب لیے پھرتے ہیں۔کمان کو سیدھی اور تیر کو تیڑھا سمجھ کر عقیدت و احترام سے عقلمندیوں پر عقلمندیاں کررہے ہیں۔ ہمیں بچپن سے دوسری قوموں پر احساس برتری کی جو مخصو ص گٹھی دی گئی ہے اس نے ایک دن یہی کچھ دکھانا تھا جو ہم اپنے ارد گرد ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ہم جیسے دس لاکھ لوگوں پر دو سو تیس سائنس دانوں کے موجودہ حالات پر اگر اس وقت کوئی رپورٹ مرتب کی جائے تو وہ سائنس دان یقنا کسی نہ کسی یورپی ، یا مغربی ممالک ( یہود و نصاری ٰ ) کی درس گاہوں سے فارغ التحصیل ہوں گے اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جان و مال کے تحفظ کے لیے ان یورپی ،یا مغربی ممالک میں سکونت اختیار کرنے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہوں گے۔ ہمارے سیاست دان اور علماء اکرام بھی ہمارے روایتی دشمن یہود و نصاری ٰ کے ممالک کے پاسپورٹ لیے خدا کی زمین میں قائم کئی ممالک میں آزادی سے گھومتے ہیں۔ جس ملک میں 40 لاکھ سے زائد لڑکیاں اپنی ڈولی اُٹھنے کے انتظار میں عمر رسیدہ ہوچکی ہیں، ہر چوتھے گھر میں دو لڑکیاں شادی کی اہل ہیں۔ چالیس لاکھ عمر رسیدہ لڑکیوں میں سے 25 لاکھ لڑکیوں کی شادی جہیز نہ ہونے کے سبب نہیں ہورہی ہو ، ان کی عبادت گاہیں ،مقبرے ، مزار چندہ ، خیرات ، ہدیہ وغیرہ سے دلہن کی طرح سجائے جاتے ہیں۔
ملک کی 80 فیصد آبادی کو سینی ٹیشن ( Senitation ) سہولیت میسر نہیں ہے۔ صحت کی سہولیت کا یہ حال کہ ہزاروں افراد کے لیے ایک ڈاکٹر ، 50 فیصد کو علاج معالجہ کی عدم دستیابی، ملک کے سابقہ وزیر داخلہ قومی اسمبلی میں فرماتے تھے کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی چالیس فیصد سے پچاس فیصد ادویات جعلی ہیں، 75فیصد بچے معیاری تعلیم سے محروم ، چودہ کروڑ آبادی پینے کے صاف پانی، دس کروڑ سے زائد آبادی دو وقت کی روٹی سے محروم، 25 فیصد سے زائد آبادی حقیقی معنوں میں چھت سے محروم ، وہاں کے سرکاری و غیر سرکاری افسران ، سیاسی ، مذہبی قائدین اپنے علاج معالجہ کے لیے ،چھوٹے چھوٹے میڈیکل چیک اپ کے لیے بھی یہود و نصاری کے پر امن ممالک میں جاتے ہوں، منرل واٹر کی بوتل ہاتھ میں لے کر چودہ کروڑ کو پینے کا صاف پانی دینے ، اپنے چیتوں، گھوڑوں ، کتوں کو حفظان صحت کے اصول والی بہترین خوراکیں اور پھلوں کے مربے دے کر ، دس کروڑ سے زائد عوام کو روٹی دینے ، اپنے جانوروں کے لیے ٹھنڈی گرم کرنے والی مشینوں اور ان جانورں کو غریبوںکی جھونپڑیوں والی آبادیوں سے بھی بڑے کمروں میں رکھ کر اگر ہمارے سیاستدان ، مذہبی رہنما روٹی کپڑا اورمکان تو دور عو ام کو عزت نفس کا ، جان و مال کا تحفظ دینے سے بھی قاصر ہوں تو اب ان سے ‘ ‘ امید کرم ہوگی جنھیں ہوگی “ ۔ میں پہلے بھی کسی تحریر میں عرض کر چکا ہوں کہ تمام مذہبی قانون نافذ کرنے اپنی محنت اپنے بازو پر جینے کے بعد یہ نفسیاتی مخلوقیں جس پر امن ملک کی بشاریتں دیتی ہیں۔ وہ ملک جاپان جیسا ہی ہوگا۔ اب جب کہ جاپان میں مقیم ہم پاکستانی برادری کو اللہ رب العزت نے یہ عزت فری میں دے دی ہے تو ہمار فرض ہے کہ ہم اس محسن ملک میں نارمل انسانوں کے بیچ میں رہ کر ابنارمل حرکتیں نہ کریں۔ یہاں کے امن کو امن ہی رہنے دیں اور ان مذہبی سفاری پارک کی مخلوقوں کو بتائیں کہ ہمارے محسن ملک میں ہماری فیکٹریوں ، کاروبار ی مراکز ، ہمسائیوں میں ہمارا سالوں کا بنایا ہوا اچھےورکروں اچھے پڑوسی ، اچھے پر امن شہریوں والا امیج تمہاری اوٹ پٹانگ حرکتوں سے برباد ہو رہا ہے۔ جاپان میں مسجد کے ہوتے ہوئے احتجاجاَ پارک میں نماز پڑھنے پر مجبور کردینے ، عبادت گاہوں میں گندی گالیاں دینے ، ایک دوسرے سے دست و گریبان ہونے ، ایک دوسرے پر عدالت میں کیس دائر کرنے ،عبادت گاہوں میں پولیس بلوانے ، تالے لگوانے میں وہی لوگ ملوث ہیں جن کے عقیدے بھی ایک ، امام و قائد بھی ایک ، مقدس نا سمجھ آنے والے منصوبے بھی ایک ہیں۔ اس کے باوجود یہ اپنے عقیدے کے مطابق بنوائی گئیں عبادت گاہ اور اپنے قائدین کی طرف سے بھیجے گئے شاگرد رشیدوں کے زیر سایہ اپنے ہی ہم عقیدہ لوگوں کے ساتھ امن بھائی چارگی، رواداری، بردباری سے ایک چھت کے نیچے عبادت نہیں کر سکتے تو یہ کس منہ سے دوسروں کو امن بھائی چارگی کا سبق پڑھانے اپنی اوقات دکھانے کے لیے ان مہذب ممالک میں ویزے کی بھیک مانگ مانگ کر ان میں کینسر کی طرح داخل ہوجاتے ہیں۔ ان مذہبی سفاری پارک کی بھوکی مخلوقوں نے اپنی اور اپنے جیسوں کی دعوت کرنے کرانے کو دعوت کا کام سمجھ لیا ہے۔ اب تومقامی (جاپانی ) لوگوں کو بھی معلوم ہوگیا ہے کہ ان کے قرب و جوار میں قائم اقلیت کی (ہماری )عبادت گاہوں میں ان اقلیت کے اسٹیج پر ہمیشہ چیختے دھاڑتے اچھل اچھل کر اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے والے ، جھوٹ، کینہ ،مکاری، ریا کاری، اقربا پروری، مطلب پرستی، نفاق کے سلینڈر کے بغیر پرسکون و پرامن جگہ پر بھی نارمل انسان کی طرح سانس لینے سے قا صر ہیں۔ ان کو اور ان کے مذہب کو وہاں بھی خطرہ ہے جہاں یہ نناوے فیصد ہیں۔ جہاں ان کی طرف غلط آنکھ اُٹھنے سے پہلے نکال لی جاتی ہے۔ جہاں مذہبی اقلیت (ہمارے ہم وطن پاکستانی بھائیوں ) کو امان دینے کے باوجود سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں ان کے گھر بار کو لوٹ لیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے مذہب کو ایک باکرہ اور خود کو ایک ایسا نفسیاتی مریض بنا لیا ہے کہ جب کے اعصابوں پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی نامعلوم پُر اسرار خوف طاری رہتا ہے۔ انھیں سوتے جاگتے دنیا کی ہر سمت سے اپنے خلاف نامعلوم سازش کی بو آتی ہے۔ دنیا کا ہر مذہب ، ہر شخص یہاں تک کے نظریاتی اختلاف والا ہم وطن ، ہم مذہب پڑوسی بھی ان کے خلاف سازش کر رہا ہوتا ہے۔ کبھی سوتے سوتے ہڑ بڑا کر اُٹھ جاتے ہیں کہ فلا ں بن فلاں نے قبل مسیح میں ہمیں دل ہی دل میں گالی دی تھی بدلہ آج لینا ہے۔ یہ مقدس سفاری پارک کی عظیم مخلوقیں اپنے مخصو ص باونڈری وال کے اندرہی رہیں تو بھی بات بن جائے لیکن ‘ ‘ اب تو مہذب ملکوں تک چلے آئے ہیں یہ نقابوںوالے ` ` نیٹ اخباروںکی جائز و نا جائز لڑائی سے جو طوفان بد تمیزی کی دھول اُڑی یا اُڑائی گئی اس نے سوچنے سمجھے کا موقع ہی نہیں دیا ورنہ ہم اس قماش کے نو سر بازوں سے ہوشیار رہنے کے لیے اپنے جیسے کم زور کم علم دوستوں کو مطلع کر تے رہے ہیں۔ جو لوگ اپنے ہم عقیدہ ہم پیالہ ، ہم نوالہ گروپ یا گروہ کے ساتھ ایک چھت کے نیچے نفاق کے بغیر عبادت کرنے سے بھی قا صر ہوں انھیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے کہ جس تعلیم کا ڈھنڈورا تیڑھے میڑھے راستوں سے آکر دوسروں کی سر زمین پر پیٹا جارہا ہے اس تعلیم سے تمہارے اپنے کتنےگھر، گلیاں محلے ، شہر سدھرگئے ہیں۔سوائے رش لگانے کےاو ر کیا کیا ہے۔۔۔؟ اگر شرم کی ایک بھی رمق باقی ہے تو ان مہذب ملکوں میں آنے سے پہلے انسانوںمیں رہنے کی تمیز سیکھ کر آئیں تاکہ مسجدیں مسجدیں ہی رہیں مسجد ضرار میں تبدیل نہ ہوں۔
سیاسی ، سماجی، مذہبی معزز صاحبانوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔( جاری ہے )