مندرجہ ذیل مضمون ۵۱ مارچ ۸۰۰۲ء کو جاپانی ثقافتی مرکز، کونسلیٹ جنرل آف جاپان (کراچی) کے زیر اہتمام منعقدہ سلور جوبلی ہائیکو مشاعرے میں بطور کلیدی مضمون پیش کیا گیا۔
اردو دنیا کی سب سے منفرد زبان ہے جس میں ہر چھوٹی بڑی زبان کے ذخیرہ الفاظ اور ادب کوبحسن و خوبی اپنانے اور سمونے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہی۔راقمِ سطور کی تحقیق کے مطابق کم و بیش پینتیس (۵۳) زبانوں کے الفاظ کسی نہ کسی طرح اس عظیم زبان کے ذخیرے میں شامل ہیں۔ مغربی ادب سے متاثر ہونے والے اکثر خواندہ اور بعض بزعم خویش عالمِ شعرو سخن یہ سمجھتے ہیں کہ طبع زاد ادب کی تخلیق ہو یا تراجم … اردو ہر دو لحاظ سے کمزور زبان ہی۔اسی طرح بہت سے پڑھے لکھے اس غلط فہمی میں نہ صرف مبتلا ہیں بلکہ اس کا ببانگ دہل پرچار بھی کرتے ہیں کہ اس زبان میں جامعیت کا عنصر مفقود ہی‘ مختصر و جامع جملے محض انگریزی زبان میں ادا کئے جاسکتے ہیں…یہ دونوں باتیں عملاً غلط ثابت ہوچکی ہیں اور اگر کوئی ایسا سمجھتا اور کہتا ہے تو اپنی کم علمی ‘ نا فہمی اور بے جا تعصب کا اظہار کرتا ہی۔
ہماری عظیم زبان کے متنوع ادب میں شامل بہت کم عرصے میں ،بہت تیزی سے مقبول ہونے والی صنف سخن ہائیکو ہی۔یہ محض اردو کا معاملہ نہیں‘ اس وقت دنیا کی تمام قابل ذکر ‘ بڑی (یا کم از کم اپنے خطے کی حد تک)نمایاں زبانوں میں سب سے زیادہ طبع آزمائی اسی صنف سخن پر ہورہی ہی۔
ہائیکو کے متعلق مبسوط تحقیقی مقالہ لکھنا اور تمام مباحث کو ان صفحات پر بالتفصیل پیش کرنا راقم سطور کے لیے محال نہیں‘ مگراس مقام پر ممکن بھی نہیں… لہٰذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حاضرین کرام کی خدمت میں مختصر تعارفی مضمون پیش کیا جائی۔
جاپانی شاعری دنیا کے قدیم ترین محفوظ سرمایہ ادب میں شامل ہی۔سنسکرت ‘ لاطینی ‘ یونانی ‘ عبرانی اور کسی حد تک عربی زبانوں میں محفوظ لوک (عوامی) ادب انسان کی شعر وادب سے ازلی وابستگی کا مظہر ہی۔ آٹھویں صدی عیسوی کے وسط میں مَن یّوشو [Manyusho]کے نام سے ساڑھے چار ہزار جاپانی منظومات کا مجموعہ مرتب و شائع کیا گیا۔ ۵۰۹ء یعنی دسویں صدی کے آغاز میں ایک ہزار ایک سو گیارہ منظومات کا مجموعہ کوکن شو اور پھر ۱۵۹ئ میں تیسرا مجموعہ گوسین شو کے عنوان سے منظر عام پر آیا۔
جاپان کی قدیم ترین اصناف سخن میں چوکا ‘ واکا یا تنکا اور رینگا(نظم مسلسل) شامل ہیں۔ نظم مسلسل کے مختلف تجربات صدیوں جاری رہنے کے بعد اس میں سے ایک حصہ ہائیکئی [Haikai]کے نام سے جدا کیا گیا‘ بعد ازآں اسے ہوکو [Hokku]کہا گیا اور پھر یہ شعری صنف ہائیکو [Haiku]کے نام سے موسوم ہوئی…»یہ معاملہ کسی حد تک اردو کی سب سے توانا صنف سخن غزل کا ہے جو کبھی عربی قصیدے میں تشبیب کے نام سے شامل ایک حصہ تھی‘ پھر عربی سے ترکی اور بعد ازآں فارسی میں یہی تشبیب غزل بن کر گویا ادب کی دلھن قرار پائی۔فارسی سے ہم نے اردو میں اس منفرد صنف کا پودا لگایا تو ترقی کرتے کرتے یہ شجر سایہ دار اپنی ماں سے آگے نکل گیا…آج لفظ غزل ادا کرتے ہی اردو غزل کی ہر عمدہ مثال سامنے آتی ہی۔«
S جدید ہائیکو کا بانی عظیم جاپانی شاعر مَت سّو ٶ باشو [Matsuo Basho](۴۴۶۱ء تا ۴۹۶۱ئ) تھا۔گویا بطور جدا گانہ صنف ہائیکو کا آغاز سترہویں صدی میں ہوا۔باشو ایک سیلانی شاعر تھا۔ آج اس کا شمار دنیا کے عظیم ترین شعراء میں کیا جاتاہے اور اس کے طے کردہ جادہ ٔ سیاحت پر چل کر جاپان کی سیر کرنا جاپانی اور یورپی اہل سخن کے نزدیک عظیم سعادت ہی۔ہائیکو کے چار بڑے اساتذہ میں باشو ‘ بوسون [Buson]‘ اِسّا [Issa] اور شیکی [Shiki]شامل ہیں… جدید دور میں ہائیکو ترقی کے مختلف مدارج طے کرچکی ہے ‘ تکنیک ،ہئیت اور موضوعات کے تنوع کے باوصف، ان عظیم سخنوروں کی تعلیمات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
بدھ مت کی شاخ زین کا فلسفہ ساتوری یعنی آگہی، ہائیکو کا بنیادی فلسفہ ہی۔ اس فلسفے کے تحت مناظر فطرت ، مظاہر قدرت کے مشاہدے نیز مراقبے کے ذریعے اس ذات اقدس تک رسائی حاصل کی جاتی ہے جو کائنات میں اول و قدیم ہی، لیکن اگر غور کریں تو معاملہ ذرا گنجلک ہوجاتا ہے کیوں کہ بدھ مت کی اصل، بنیادی تعلیمات میں خدا کاواضح تصور موجود نہیں!
آج ہائیکو دنیا کے ہر موضوع سے متعلق نظر آتی ہی،مگر مناظر و مظاہر کے گاہے گاہے باقاعدہ انفرادی واجتماعی گروہ در گروہ مطالعے ‘ مشاہدے اور مراقبے کا اہتمام مختلف تہواروں پر کیا جاتا ہی۔ گویا اس صنف کی بنیاد آج بھی ترو تازہ ہی۔
ہائیکو کی تکنیکی بنیاد یک صوتی حروف [Monosyllabic chararacters] پر ہے جو غیر مقفیٰnon-rhymed] ہوتے ہیں اور نظم کرتے وقت ان کی ترتیب یہ ہوتی ہی: پانچ۔سات۔پانچ=۵۔۷۔۵
موسیقی کی بنیاد پر اسے یوں سمجھا جاسکتا ہی: سارے گاماپا=۵
دھا نی سارے گاماپا=۷
سارے گاماپا=۵
یعنی جب آپ اپنی زبان میں ہائیکو نظم کریں تو اس کی شکل یو ں ہوگی کہ پہلے مصرع میں الفاظ ،وزن کے لحاظ سے پانچ صوتی ہوں گی، دوسرے میں سات اور تیسرے میں پھر پانچ۔جاپانی ہائیکو میں موسم کی اہمیت بہت زیادہ ہی۔ اس نظم میں کی دائی [KIDAI]یعنی موضوع ِ موسم [Season theme] اور کی گو [KIGO]یعنی حرفِ موسم یا حرف فصلSeason word]، ضروری عنصر ہوتے ہیں۔ جدید ہائیکو میں ان لازمی عناصر سے انحراف عام ہے مگر پابندی کا رواج ختم ہونے کی بجائے بہت مقبول ہی۔
1 دسمبر ۲۲۹۱ئ میں معتبر ادبی جریدے ’نگار‘ (لکھنٶ) نے بیرسٹر سید حسن عابد جعفری کا یادگار مضمون ’’ جاپانی شاعری پر اک نظر‘‘ شائع کیا۔ فاضل مصنف نے اس نگارش کے ذریعے ہائیکو سمیت مختلف اصناف کا تعارف اردو گو طبقے سے کرایا۔یہ اہم مضمون بہت جلد فراموش کرد یا گیا، پھر ۶۳۹۱ئ کی ابتداء میں ایک اور اہم جریدے ’ساقی‘ (دہلی) کا ’’ جاپان نمبر‘‘ شائع ہوا۔ اس اہم خصوصی شمارے میں عزیز تمنائی ،فضل حق قریشی اور علی ظہیر جیسے ادیبوں نے ہائیکو اور دیگر جاپانی اصناف کے تراجم کی خدمت انجام دی۔ مواد کی فراہمی میں نور الحسن برلاس کا کردار کلیدی تھا۔
۶۳۹۱ئ سے ۰۶۹۱ئ تک اردو میں جاپانی صنف سخن ہائیکو کے (بذریعہ انگریزی) تراجم کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ نمایاں مترجمین میں حمید نظامی، میراجی ، ظفراقبال، کلیم الدین احمد ، عبدالعزیز خالد، قاضی سلیم وغیرہ شامل ہیں۔ ۰۶۹۱ء کی دہائی میں عبدالعزیز خالد کی کتاب
’’ غبار شبنم‘‘ کے ذریعے ہائیکو کے آزاد ، تکنیکی لحاظ سے محض سادہ سہ مصرعی تراجم سامنے آئی۔۳۶۹۱ئ میں نامور اردو شاعر محسن بھوپالی(مرحوم) نے سندھی سے ہائیکو کے منظوم تراجم کرکے ’افکار‘ (کراچی) میں شائع کرائے ۔۶۶۹۱ئمیں قاضی سلیم کے آزاد ہائیکو کی اشاعت کا ذکر ملتا ہے جو ہئیت کے لحاظ سے ناقص نظمیں تھیں۔۰۷۹۱ئ یا ۱۷۹۱ئ کی بات ہے جب معروف شاعر آفاق صدیقی اور ا ن کے دوستوں ڈاکٹر تنویر عباسی اور شیخ ایاز نے دریائے سندھ کے کنارے نجی محفل میں پہلی مرتبہ باقاعدہ اردو ہائیکو نظم کی۔ہماری خوش نصیبی ہے کہ محترم آفاق صدیقی صاحب اس وقت یہاں تشریف فرما ہیں۔» اس ضمن میں اولیت کے بعض اور انکشافات یا دعوے بھی موجود ہیں ، مگر تحقیق نہیں ہوسکی«
۰۷۹۱ئ کی دہائی میںڈاکٹر محمد امین جاپان گئے تو وہاں انہیں ہائیکو سے باقاعدہ تعارف حاصل ہوا۔ ان کی کوشش اور تحریک سے ملتان اور پنجاب کے دیگر حصوں میں اس صنف کا رواج ہوا۔ڈاکٹر محمد امین نے اردو ہائیکو کا پہلا مجموعہ ۱۸۹۱ئ میں مرتب کرکے شائع کیا جو اَب نایاب ہی۔ اس کے بعد اردو مجموعہ ہائے کلام کا سلسلہ چل پڑا اور آج ان کی تعداد کم وبیش پچاس ہی۔ علاقائی زبانوں میں بھی ہائیکو کا چلن اتنا زیادہ ہے کہ ان میں آئے دن مجموعے شائع ہورہے ہیں۔»ان کی تعداد کا تعین مشکل ہی، اندازے کے مطابق تقریباً ۰۵ ہوں گی«
کراچی سمیت پاکستان بھر میں ہندوستان ‘ بنگلہ دیش ‘ امریکا‘ برطانیہ نیز دیگر خطوں میں اردو ہائیکو کی مقبول ترین بحر، بحر متقارب ہے یعنی:
فعلن ، فعلن، فع/فعلن ، فعلن، فعلن ،فع/ فعلن ، فعلن، فع
اس کے برعکس پنجاب مکتب فکر نے اکثر بحر خفیف مسدس(فاعلاتن، مفاعلن، فعلن…) اپنائی ہی، جسے عرف عام میں مساوی الاوزانEqual meter] کہا جاتا ہے ۔ اب ذرا ان دو بحروں کی مثالیں ملاحظہ کیجئی:
بحر متقارب: پانی کا جھرنا »فعلن ، فعلن، فع«=۵ صوتی ارکان
ڈھونڈو تو مل جائے گا »فعلن ، فعلن، فعلن ،فع«= ۷ صوتی ارکان
پیاسے مت مرنا »فعلن ، فعلن، فع«=۵ صوتی ارکان
شاعر: اقبال حیدر
بحر خفیف مسدس: روشنی کی لکیر چھوڑ گیا
شب کی کالی سلیٹ پر جگنو
یاد آیا مجھے نسیم کوئی
شاعر: نسیم سحر
اردو میں ہائیکو کہنے والوں کی تعداد دو سو(۰۰۲) سے زائد ہی۔ ان میں بزرگ ترین سخنور تابش دہلوی(مرحوم) اور راغبؔ مرادآبادی شامل ہیں، علاوہ ازیں اس صنف کے سرپرستوں میں پروفیسر محمد رئیس علوی‘ محسن بھوپالی(مرحوم)،اقبال حیدر، وضاحت نسیم اور دستاویزی کام کے لحاظ سے سہیل احمد صدیقی نمایاں ہیں۔ہائیکو کے مقبول اور ممتاز شعراء میں لیاقت علی عاصم، آفتاب مضطرؔ،شاہدہ تبسمؔ،رخسانہ
صبا،شاہدہ حسن،شہاب الدین شہابؔ،یاسر چغتائی، جمال ؔنقوی،فاطمہ حسن اور راشد نور اہم نام ہیں۔بزرگ شعراء میں قمرؔ جمالی امروہوی، رساؔ چغتائی، حمایت علی شاعرؔ،شبنم رومانی، منظر ایوبی، جاذب ؔقریشی،رئیس باغی،سحرانصاری، سہیل غازی پوری جیسے قابل ذکر سخنور اور جواں سال قافلے میں سہیل احمد صدیقی ، روبینہ تحسین بیناؔ، شہزاد نیاز سمیت بہت سے نام شامل ہیں۔جاپانی سے واقف اردو شعراء میں ڈاکٹر محمد امین، پروفیسر محمد رئیس علوی، محترمہ وضاحت نسیم، آفتاب مضطر اور سب سے کم عمر شہزاد نیاز شامل ہیں۔
O اردو ہائیکو کے مجموعوں میں بعض اپنی انفرادیت منواچکے ہیںجیسے آفتاب مضطرؔ کا ’’ سورج کے اس پار‘‘ جس میں تمام نظموں پر عنوان چسپاں کیا گیا اور منتخب ہائیکو کے جاپانی تراجم پیش کیے گئی، جمال ؔنقوی کا ’’ نغمے سورج دیس کی‘‘ جس میں منتخب نظموں کا جاپانی اور تمام نظموں کا انگریزی میں ترجمہ اور عنوانات کا التزام کیا گیا،نسیم سحر کا ’’ روشن دان میں چڑیا‘‘ جس میں بحر متقارب اور بحر خفیف مسدس دونوں کا بیک وقت پہلی مرتبہ اہتمام کیا گیا۔ اس طرح ہائیکو مجموعوں میں خارج و باطن کے تمام پہلوٶں کی حسین اور بھرپور ترجمانی کے لحاظ سے فراست رضوی کا ’’ کہر میں ڈوبی شام‘‘قابل ذکر ہی۔ ضمنی نکات میں عرض کرتا ہوں کہ آفتاب مضطر اور جمال ؔنقوی دونوں کے منتخب کلام کا ترجمہ عزت مآب شیگی یوکی اتاکاShigiuki Ataka]»سابق مشیر برائے کونسل جنرل جاپان، کراچی« نے کیا جن کا اسلامی نام محمد عظمت ہی۔جمالؔ کی تمام ہائیکو کا انگریزی ترجمہ سہیل احمد صدیقی نے کیا ہی۔ اردو شاعرات میں پہلا مجموعہ ’’ پانچ ۔سات۔پانچ‘‘ محترمہ ثروت سلطانہ ثروتؔ کی تخلیق ہی… ابھی پروگرام کے آغاز سے کچھ دیر قبل وہ مجھے بتارہی تھیں کہ ان کا دوسرا ہائیکو مجموعہ بھی منتظر اشاعت ہی، یوں وہ پہلی اردو شاعرہ ہوں گی جن کے دو ہائیکو مجموعہ ہائے کلام شائع ہوئی۔محترمہ وضاحت نسیم کے مجموعے ’’ دل چھونے والا منظر‘‘ میں طبع زاد کلام کے ساتھ ساتھ جاپانی سے براہ راست تراجم بھی شامل ہیں‘ جبکہ ان کے فوری بعد اسی سال (۶۰۰۲ئ میں) راقم ِ حروف کا مجموعہ ہائیکو ’’ خوش کن ہے پت جھڑ‘‘ منظر عام پر آیا ، جو اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں اس خاکسار نے کسی بزرگ سے تنقیدی مضمون لکھوانے کی بجائے خود اپنے کلام پر تنقید کی ہی۔
اردو ہائیکو کی روز افزوںمقبولیت میں سب سے اہم کردار ان سالانہ ہائیکو مشاعروں کا ہے جو ۳۸۹۱ئ میں جاپانی قونصل خانے کے ثقافتی مرکز نے پروفیسر ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی کی تحریک سے شروع کیے اور آج تک کامیابی سے جاری ہیں۔ ان مشاعروں میں طبع زاد کلام کے ساتھ ساتھ جاپانی سے (بذریعہ انگریزی)منظوم تراجم پیش کیے جاتے ہیں۔کچھ سال سے یہ مشاعرہ پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن کے انصرام و اشتراک سے منعقد ہورہا ہے ۔
کچھ عرصے بعد (۰۹۹۱ئ کی دہائی میں) سفارت خانہ جاپان کی سرپرستی میں اسلام آباد میں اور پھر قونصل خانے کے زیر نگرانی کوئٹہ اور لاہور میں ہائیکو مشاعروں کا انعقاد شروع ہوا۔پاکستان ہائیکو سوسائٹی کے بانی اقبال حیدر نے متواتر ۴۲ سال ہائیکو مشاعروں میں کلام پیش فرمایا اور ان کی مساعی سے متعدد مقامی زبانوں میں ہائیکو شاعری کا فروغ ہوا۔آج جب ہم ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں تو وہ ہمارے درمیان تشریف فرما نہیں، ہم سب ان کی بحالی صحت کے لیے دعا گو ہیں۔
۸۹۹۱ئ میں اردو دنیا میں ہائیکو کے فروغ کے لیے پہلا اور واحد کثیر لسانی [Multi-lingual]رسالہ ’’ ہائیکو انٹرنیشنل ‘‘ کراچی سی
جاری ہوا۔ تا حال اس رسالے کے نو(۹) شمارے شائع ہوچکے ہیں، جن میں چار مشاہیر سخن محسن بھوپالی(مرحوم)، اقبال حیدر، وضاحت نسیم اور رئیس علوی پر وقیع خصوصی شمارے بھی شامل ہیں۔ہائیکو انٹرنیشنل کا ’’ اقبال حیدر نمبر‘‘ پندرہ علاقائی و بین الاقوامی زبانوں میں مواد اور ترتیب وپیش کش کے لحاظ سے اہم ترین کارنامہ ہی، جبکہ ہائیکو انٹرنیشنل مجموعی طور پر پچیس زبانوں میں ہائیکوسے متعلق مواد (طبع زاد ،تراجم،تنقیدی مضامین،تبصری،تعارف، انتخاب سمیت) شائع کرکے عالمی ریکارڈ قائم کرچکا ہی۔اقبال حیدر نمبر کے دو ایڈیشن شائع ہوئے اور ان کی تقریب پذیرائی کراچی اور کوئٹہ کے دو ممتاز مقامات پر منعقد ہوئی۔اس جریدے کا بانی مدیر و ناشر یہ خاکسار ہی۔
آخر میں یہ عرض کرنا ،ناگزیر معلوم ہوتا ہے کہ ہئیت،مزاج اور موضوعات کے تنوع کے سبب، اردو ہائیکو بھرپور اور پرکشش صنف سخن بن چکی ہی۔ حمد و نعت ، منقبت و مناجات، رنگِ تغزل، حب وطن، شہر آشوب، عصر حاضر کی ہمہ جہت عکاسی، مستقبل بینی، غرض کس موضوع اور کس جہت کی کمی ہی… اردو ہائیکو جمالیاتی لحاظ سیaesthetically]جاپانی ہائیکو سے مختلف بھی ہے ، کہیںکہیں مماثل بھی اور ہم اہل زبان کی نظر میں تو دنیاکی کسی بھی زبان کی ہائیکو سے زیادہ مٶثربھی!
اختتام پر میں ہائیکو مشاعرے کے جشن سیمیں کی مناسبت سے اپنی ایک ہائیکو آپ کی نذر کرتا ہوں:
دکھ سکھ سانجھا ہو
ساون رُت ہو یا پت جھڑ
راضی رانجھا ہو
» ۵۱ مارچ ۸۰۰۲ء سلورجوبلی اردو ہائیکو مشاعرے میں پڑھا گیا کلیدی مضمون «
6 comments for “اردو ہائیکو نگاری۔ ایک مختصر جائزہ… سہیل احمد صدیقی”