تحریر: سہیل احمد صدیقی
ہائیکو انٹرنیشنل کا شمارہ ششم ’’رئیسؔ علوی نمبر‘‘ تھا، اس میں راقم نے رئیس صاحب سے کیا گیا ذاتی انٹرویو اور ایک مضمون بزبان انگریزی ”Rais Alvi-The noblest of Pak. Haikuists” بھی شامل کیا تھا ۔ہلکے پھلکے انداز میں لکھے گئے اس مضمون میں ابتداء اس مقولے سے ہوئی تھی: ’’ درزیوں اور لکھاریوں کو فیشن کا لحاظ لازم ہی‘‘ اور پھر مَیں نے برملا کہا تھاکہ بعض مستثنیات بہرحال موجود ہیں۔
رئیسؔ علوی زبان اور تہذیب سے آشنا ایسی شخصیت ہیں جو کلاسیکی رچائو کو جدید انداز سے غزل کے پیرائے میں پیش کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ میرے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے سنگین حقیقت کی برملا نشان دہی فرمائی تھی کہ ’’ جی ہاں ، اردو شاعری ایک ترقی یافتہ زبان کی شاعری ہی، مگر یاد رہے کہ ساتھ ساتھ یہ ایک ترقی پذیر معاشرے کی شاعری بھی ہی۔ آپ ادب کو معاشرے سے الگ نہ دیکھئے ۔جب بادشاہ ، نواب، صوفی ، سردار شعر کہتے تھے اور اس فن کی قدر کرتے تھے تو میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ جیسے شعراء کی پیدائش کے امکانات تھی۔اب معاشرے کا طبقہ اولیٰ، دولت جمع کرنے کی ہوس میں مبتلا ہے تو زبان و ادب کا ذوق ، ’طنز‘ ہی‘‘۔
g اس بیان کی روشنی میں اگر جائزہ لیا جائے تو زیادہ کدوکاوش کے بغیر یہ حقیقت آشکار ہوجائے گی کہ آج بڑے شاعر تو کُجا ، اچھے شاعر بھی کم کم ہیں۔۔۔۔۔یہاں یہ بھی یاد رکھئے کہ روایت پرست نہ ہوتے ہوئے ، روایت کے عطر سے خوشبو حاصل کرنا اور ایک نئی خوشبو یعنی ’’جدید کلاسیکی طرز‘‘تشکیل دینا ہی کمال ہی، روایت شکنی کے شوق میں لسانی تجربات کے بے جا بھرمار ، مقامی رنگ کو سمونے کی شعوری کاوش میں اردو کو ہر جگہ زیر بار کرنا ، اپنے قدیم مکاتب فکر (دکن، دہلی ، لکھنو، عظیم آباد ، امروہہ اور بعد ازآں لاہور کراچی ) کا تمسخر اڑاکر درباری مسخروں کی طرح داد ، وصول کرنا ہرگزدانش مندی نہیں۔۔۔۔۔اس ’’نکتہ دانی ‘‘ کو اہم جانیں تو کلام ِ رئیس ؔ دیکھئے َِؒ َوہ فرسودہ بیان بھاپ بن کر اڑ جائے گا کہ لکھنو کی شاعری محض خارج کا اظہار ہے ، یہ غلط ثابت ہوجائے گا کہ غزل کے رسیا کوئی بڑی بات(بالخصوص اپنے عہد کی عکاسی ) اس ڈھنگ سے نہیں کہہ (کر) پاتے جو شاید بقول ِ بعض ، نظم گو حضرات کا خاصہ ہی۔یا۔ اب روایت کا دور گزرگیا ، کوئی اور بات کرو۔۔۔۔ اصل میں ہمارے اکثر اہل ادب، بشمول معدودے چند ، نقاد ، نثر و نظم میں بہ نظر غائر ، مطالعہ کرنے کی بجائے سہل انگاری فرماتے ہوئے کچھ کلیشے نقل کرتے چلے جاتے ہیں اور اُ ن کے کور مقلد ، داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے ہیں کہ اب یہی چلن ہے ، ’’جیو اور جینے دو ‘‘ کے منفی مفہوم کے مصداق!
رئیسؔ علوی کے کلام سے خوشہ چینی کیجئے اور دیکھئے کہ مندرجہ بالا خامہ فرسائی کس حد تک درست محسوس ہوتی ہی:
اسیر ایسے ہوئے ہیں، نہیں مقام کی قید بیاض گل پہ رنگ گردش ایام لکھتے ہیں گزرگئی شب ہجراں سو حال کیسا ہی
ہمارے ساتھ یہ دیوارو در بھی چلتے ہیں ہوا کے ہات شبنم سے ہمارا نام لکھتے ہیں ستارہ سحری اب ملال کیسا ہی
رواں ہیں اشک جو سینے میں خاک اڑتی ہے کچھ دل کا عجب معاملہ ہے زمانہ کس کے لیے مستقل سفر میں ہی
نہ جانے دشت یہ دریا مثال کیسا ہے کہنے کو چراغ جل رہا ہے زمیں ہے رقص میں ، آوارہ آسماں کیوں ہی
(اس آخری شعر پر رئیس صاحب کے استاد گرامی پروفیسر ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی مرحوم نے فرمایا: ’’غور کیجئے تو اس شعر کا سلسلہ نسب ، میرؔ صاحب کے اس شعر سے جا ملتا ہے :
؎ مت سہل اسے جانو ، پھرتا ہے فلک برسوں۔۔۔۔۔ )
اور ذرا یہ شعر دیکھئے : بہار باغ تمنا کہاں پہ ٹھہری ہے کہ جب خزاں نے مِرے جسم میں قیام کیا
کھلا کہاں پہ یہ عمر گریز پا کا فریب بدن نے جھک کے مجھے آخری سلام کیا
حضور یہ دونوں شعر غزل کے نہیں ، بلکہ رئیسؔ کی مشہور نظم ’’ آخری سلام ‘‘ کا تتمہ ہیں۔۔۔اب کیا خیال ہی، تنگنائے غزل کے اسیر ، ایک شعر میں داستان سمونا جانتے ہیں کہ نہیں؟
جوش ؔ کی کورانہ تقلید میں بلا سبب، بغیر دلیل ، پُرجوش انداز میں غزل کو مردود قراردینے والے کیا اس تغزل کو خارج کرکے کوئی ایسی ہی توانا نظم تخلیق کرسکتے ہیں؟
لکھنو کا روایتی رنگ بھی بعض جگہ ایسا اجاگر ہوا ہے کہ شاعر کا نام چھُپا کر فریب دینا آسان ہی:
ہوا ہے نقش دل میں اُس کا چہرہ آئے تھے لاکھ مہرباں ، دل نہ مگر بہل سکا
رئیس ؔ اب صاحب ِ دیوان ہوا ہے ایک نگاہ ِ ناز تھی ، اُ س نے ہی حوصلہ دیا
مزید مثالیں تلاش کرنا ناقدین کا فریضہ ہے ، بندہ بس اشارہ کافی سمجھتا ہی۔
بھیگی ہے رات یوں کبھی اُس کی حیا کے آب سے زلف ِ سیاہ تا کمر، ساتھ رہا وہ رات بھر
پھیل رہی تھی چاندنی ، کھُلتی ہوئی قبا کے ساتھ صبح ِ سفید آگئی ، ساعت ِ مہرباں گئی
اب اس قسم کی شاعری میں جب مشق مزید پختہ اور خارج و باطن کے ملاپ سے قدرے فزوں ہوتی ہے تو ایسے شعر بھی معرض ِ وجود میں آتے ہیں:
وحشت ہو کہ جاں اور نہ جاناں نظر آئے شاید آجائے مسافر کوئی بھولا بھٹکا
گیسو نظر آئیں نہ گریباں نظر آئے دل یہ کہتا ہے سرِ شام سے گھر میں رہنا
نظم گوئی میں بھی تغزل کی فضاء ساتھ لیے سرگرداں، رئیسؔ نے یہ بھی کہا ہے :
جب شہر ِ خزاں میں آئے ہو ، کچھ دور چلو تنہا تنہا کہیں تیز ہوا کے ہاتھوں سی، گری سہمی ، سوکھی شاخوں سے
کچھ دیر سنو سنّاٹے میں ،کوئی نوحہ پیلے پتّوں کا کچھ گرد سجائو پلکوں پہ ذرا سر پہ بٹھائو ذرّوں کو !
جاپانی اصناف ِسخن ہائیکو اور تنکا کی قابل قدر اور بے لوث خدمت رئیس ؔ علوی کا طُرہ امتیاز ہے ، انہوں نے اردو او ر جاپانی شاعری میں قدر مشترک ’’مشرقیت ‘‘ نہ صرف دریافت کی بلکہ منظوم تراجم اور طبع زاد ہائیکو نیز تنکا میں تہذیب کی ایسی بازیافت فرمائی کہ جابجا عقل دنگ رہ جاتی ہی۔۔یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہی، بظاہر دو مختلف تہذیبی پس منظر اور تاریخ کی حامل دو زبانیں بالکل ماں جائی بہنیں نظر آتی ہیں!
رئیس ؔ علوی کو ہندوستان کی ہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ کمیٹی نے ۷۲ مئی ۷۰۰۲ء کو لکھنو میں اردو زبان وادب کے لیے بیش بہا خدمات انجام دینے پر اعزاز سے نوازا ۔ یہ اعزا ز اس سے قبل ، پاکستان میں صرف فیض احمد فیضؔ کو عطا ہوا تھا ۔کسی لابی یا نعرہ باز گرو ہ ادب سے وابستگی کے بغیر ، ایسا اعزا ز پانا یقینا بہت بڑی بات ہے ، کاش ہمارے یہاں بھی محض نام کی بجائے کام کی بنیاد پر اعزا ز واکرام کی روایت مستحکم ہوتی!
افکار پریشاں کے اس آزاد اظہار میں آخری بات بعض احباب کی معلومات میں اضافے کے لےی۔۔۔آرٹس کونسل (کراچی) میں چند برس قبل رئیس ؔ علوی کے اعزاز میں تقریب ہورہی تھی کہ انہوں نے کلام پیش کیا۔حاضرین میں شامل ایک طنز نگار حیدر حسنین جلیسی نے نہایت جارحانہ انداز میں ان کے کلام میں ، اپنے تئیں اسقام کی نشان دہی کی ۔۔۔شور مچ گیا ،مگر رئیس ؔ صاحب نے تہذیب و شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمال تحمل سے سہہ لیا ، بخدا کوئی اور اُن کی جگہ ہوتا (خود جلیسی بھی!) تو شاید وہاں کچھ اور نقشہ نظر آتا ۔۔۔یہ مثال ہے کہ اچھا شاعر ، اچھا انسان بھی ہو تو اس کے ہر شعر پر محض واہ واہ نہیں ہوتی بلکہ اس کی صداقت بھی دل میں گھر کرتی نظرآتی ہی۔
میں باضابطہ نقاد نہیں ، نہ ہی تیری میری باتیں دُہرا کر کسی قسم کی روایتی لفاظی کے سہار ے داد و تحسین حاصل کرنا میرا منشاء ہی، لہٰذا اس تحریر کو دل کی آواز سمجھ کر قبول کیجئے تو عنایت ہوگی۔