بداخلاقی پر انضباطی کاروائی کا نشانہ بننے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد 2011 سے 23 فیصد زیادہ، این پی اے

ٹوکیو: نیشنل پولیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس سال کی پہلی ششماہی میں پولیس والوں کی بد اخلاقی کی اطلاعات 2011 کے مقابلے میں 23 فیصد بڑھی ہیں۔

ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق، 2012 کی پہلی ششماہی میں 205 پولیس اہلکاروں کو انضباطی کاروائی کا نشانہ بنایا گیا، جن میں 31 ایسے بھی شامل ہیں جن کے انحراف کو ملازمت سے برخاستگی جتنا سنگین سمجھا گیا۔ این پی اے نے کہا کہ یہ تعداد 2000 کے پولیس اصلاحات ایکٹ کے بعد سب سے زیادہ ہے اور اس سے عوامی اعتبار کو ٹھیس پہنچانے والے پولیس اسکینڈلز کی بحرانی کیفیت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔

پولیس کی بد اخلاقی اس ماہ ایک بار پھر سرخیوں میں آ گئی تھی جب ایک پولیس والا نابالغ لڑکی کو اوساکا میں ساحل سمندر پر لے گیا، اسے زبردستی الکوحل پلایا اور پھر مبینہ طور پر اس سے زیادتی کی۔

این پی اے نے برخاستگیوں میں بھی یکلخت اضافے کی اطلاع دی ہے، جیسا کہ کاناگاوا میں اس سال ہوا، جس میں پولیس اہلکار اپنے اعداد و شمار کو بہتر بنانے کے لیے جعلی دستاویزات کی تیاری اور غیر موجود مقدمات کی ایجاد میں ملوث تھے۔ این پی اے کی رپورٹ کے مطابق، بداخلاقی کی دوسری مثالوں میں جنسی طور پر ہراساں کرنا، ٹانگوں کی ویڈیو بنانا اور شراب پی کر غل غپاڑہ وغیرہ شامل ہیں۔

این پی اے نے پولیس کی تعلیم اور انتخاب کے عمل کو بہتر بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا، تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ بدعنوان اہلکار ابتدائی مرحلے میں ہی فارغ ہو جائیں۔ ایجنسی ہر افسر میں “فرض کی فہم اور پیشہ ورانہ فخر” کی باقاعدہ بنیادوں پر جانچ پڑتال کا نظام بھی متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہے، تاکہ عوامی اعتماد دوبارہ سے بحال کیا جا سکے۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.