جاپان کے یک نسلی سماج ہونے کا افسانہ عرصہ ہوا اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ گلوبلائزیشن کی بڑھوتری کے بعد سے جاپان میں کام کاج کرنے اور رہنے سہنے والے غیرملکیوں کو دیکھا جانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔
ایک جاپانی مصنف نے اسی سلسلے میں ایک کتاب لکھی ہے جو کئی غیر ملکیوں کی کہانی سناتی ہے۔ اس میں ایک جنوبی کورین کا ذکر ہے جس نے کم قیمتوں کے ذریعے جاپان کے بازار جنس کو تسخیر کیا؛ ایک اسرائیلی کا ذکر ہے جس نے ویزا ایکسپائر ہو جانے کے بعد ایک جاپانی عورت سے شادی کرنے کے لیے پیسے ادا کیے تاکہ اسے جاپانی شہریت مل سکے؛ اس میں چینیوں کا ذکر ہے جو شہریت حاصل کرنے کے بعد ملک سے بھاگ لیتے ہیں، اس کے علاوہ اس میں بہت سے مثالیں موجود ہیں جنہیں مصنفت جاپان میں رہنے والی غیرملکی برادریوں کے ‘زیرزمین’ حقائق سے تعبیر کرتا ہے۔
صاحب کتاب ایشی لکھتا ہے کہ غیرملکیوں کی طرف سے جاپان میں بےشمار جعلی شادیاں کرنے کے بعد اب کچھ عالمی میچ میکنگ کمپنیاں متاثرین کو زرتلافی بھی ادا کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ مصنف اپنے قارئین کو جاپانی غیر ملکیوں کے ایک تازہ طرز عمل سے متعارف کرواتا ہے یعنی پیشے بدلنا۔ اس طرز عمل کی مثال دیتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ انڈین ریستوران کھولنے والے پاکستانی اس کی ایک مثال ہیں۔