بیجنگ: چین صومالی قزاقوں کے خلاف گشت میں جاپانی اور بھارتی بحریہ سے قریبی تعاون کر رہا ہے، جو کہ چینی لوگوں کے ان مرکزی ایشیائی حریف ممالک کے متعلق ملے جلے جذبات کے باوجود دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے اور عالمی تجارت کو محفوظ بنانے کے لیے چین کی بڑھتی ہوئی رضامندی کا غماز ہے۔
چینی وزارت دفاع کے ترجمان یانگ یوجون نے بریفنگ کے موقع پر صحافیوں کو بتایا کہ جاپان کی میری ٹائم سیلف ڈیفنس فورس اتوار کو معاہدے میں شامل ہونے والی پہلی بحریہ بن گئی جو تینوں ممالک کو گشت میں مطابقت پیدا کرنے اور حفاظتی ذرائع کو بہترین انداز میں استعمال کرنے کا موقع دے گا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ چینی بحریہ کے بڑھتے ہوئے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے جس سے چین کے قریبی سمندروں میں تنازع کے امکانات کم ہو جائیں گے جہاں جاپان، امریکہ اور دوسرے ممالک کی بحریہ گزرتے وقت کے ساتھ اس کے قریب آتی جا رہی ہیں۔ روبیل اور یوشی ہارا کا کہنا ہے کہ جب معاملہ ایسا ہو جسے چین اپنے اقتدار اعلی کے “مرکزی مفادات” گردانتا ہے، خاص طور پر چین کے قریبی سمندروں کے معاملات، تو کثیر قومی تعاون کے نتیجے میں مہربان اور بامروت چینی بحریہ تشکیل پانے کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔
یوشی ہارا نے کہا، “مجھے یہ مستقبل قریب میں تو ہوتا نظر نہیں آتا، تاہم چینی روایات اور احساسات کو شکل دینے کے لیے یہ اچھی کوشش ہو سکتی ہے”۔
اور جاپان یا بھارت کے ساتھ جو مرضی بریک تھرو ہو جائیں، چینی بحریہ کا امریکی بحریہ سے رشتہ مسائل زدہ ہی رہے گا، خاص طور پر جبکہ امریکہ 2020 تک پوری دنیا میں اپنے بحری بیڑوں کا 60 فیصد بحر الکاہل میں تعینات کرنا چاہتا ہے۔
ایشیا اور پیسفک سے متعلق اعلی سطح کے امریکی فوجی کمانڈر کے پچھلے ہفتے بیجنگ کے دورے کے موقع پر وزیر دفاع لیانگ گوآنگلی نے واشنگٹن کے ایشیا کی طرف جھکاؤ پر خدشات کا اظہار کیا اور چینی ساحلوں کے قریب امریکی جاسوس مشنوں کی شکایت کی تھی۔