ٹوکیو: جاپان میں ایٹمی توانائی پر مستقل جاری بحث ایک اور سوال کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لا رہی ہے: کیا جاپان کو ایٹمی ہتھیار بنانے کا امکان کھلا رکھنا چاہیئے، چاہے بطور ایک آپشن ہی ہو؟
ایٹمی دھماکوں سے تاراج ہونے والے اکلوتے ملک میں یہ شاید حیرت انگیز معلوم ہو، خصوصاً جب کہ اس نے 6 اگست کو ہیروشیما اور اس کے تین دن بعد ناگاساکی میں ایٹمی دھماکوں کی 67 ویں برسی منانی ہے۔ جاپانی حکومت سرکاری طور پر ایٹمی ہتھیاروں سے لاتعلقی ظاہر کرتی ہے، اور شہریوں کی بہت بڑی تعداد ان کی مخالفت کرتی ہے۔
تاہم جیسے جیسے جاپان ایٹمی توانائی کو ختم کرنے پر غور کر رہا ہے، ویسے ویسے کچھ قدامت پرست آوازیں، جن میں کچھ با اثر سیاستدان اور دانشور بھی شامل ہیں، اپنے اس خیال کو زیادہ سے زیادہ آواز دے رہے ہیں کہ جاپان کے پاس کم از کم ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت ضرور ہونی چاہیئے۔
یہ دونوں معاملات ایک دوسرےسے اس لیے جڑے ہوئے ہیں چونکہ ایٹمی پلانٹ سے ایٹمی ہتھیار بنانے کی ٹیکنالوجی اور خام مال تیار ہو سکتا ہے، جیسا کہ ایران اور شمالی کوریا میں ایٹمی پروگراموں پر خدشات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ اس طرح ایٹم بم بنانے کے عمل کو چھپا رہے ہیں۔
ایشیبا نے زور دیا کہ جاپان ایٹمی ہتھیار بنانے کی تیاری نہیں کر رہا۔ پچھلے دو عشروں کی سرکاری تاریخی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے بار بار انکار کے باوجود، ایٹمی ہتھیاروں سے لیس جاپان کی تجویز پر عرصہ دراز تک پسِ پردہ بحث ہوتی رہی ہے۔