ٹوکیو: اس ہفتے جاری ہونے والی ایک تحقیق سے ایسے لوگوں میں تابکاری کے بہت کم درجوں کا انکشاف ہوا ہے، جو فوکوشیما ڈائچی بجلی گھر کے قریب پگھلاؤ کے واقعات ہونے کے وقت رہ رہے تھے۔
اس تحقیقی پرچے، جو جرنل آف امریکن ایسوسی ایشن میں چھپا، میں 8066 بالغ اور 1432 بچوں میں سیزیم کی مقدار ناپی گئی اور پتا چلا کہ اوسط خوراک 1 ملی سیورٹ سالانہ سے بھی کم تھی، جسے محفوظ خیال کیا جاتا ہے۔ یہ ایسی پہلی تحقیق تھی جس میں آفت زدہ علاقے سے لوگوں کی بڑی تعداد میں سیزیم کی زد میں آنے کو ناپا گیا ہے۔
اس تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ تابکاری والی آلودگی،خاص طور پر بچوں میں، وقت کے ساتھ ساتھ کم ہو گئی، جس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ ان کے کھانے، پانی اور بیرونی سرگرمیوں کے سلسلے میں احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں تھیں۔
رپورٹ کے مطابق، “ابھی تک شدید مسائلِ صحت کا کوئی کیس رپورٹ نہیں کیا گیا؛ تاہم، تابکاری کے طویل المدت اثرات کا مطالعہ کرنے کے لیے اس کی زد میں آنے اور متاثرہ برادریوں کی صحت کی صورتحال پر مسلسل تحقیق کرنا ہو گی”۔
کولمبیا یونیورسٹی میں تابکاری کے ماہر طبیعات دان ڈیوڈ جے برینّر، جو اس تحقیق میں شامل تھے، نے کہا، “ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ حادثے کے فوراً بعد تابکاری کی کتنی مقدار اثر انداز ہوئی تھی، اگرچہ زد میں آنے کی مقدار بہت کم ہے”۔
انہوں نے اے پی کو بتایا، “تاہم ہمیں تابکاری کی مقدار کے تخمینے درکار ہیں جس کی زد میں فوکوشیما میں اور اس کے نزدیک رہنے والے لوگوں آئے”۔ “اس وقت ہمارے تخمینے بہت زیادہ رف حساب کتاب پر مشتمل ہیں۔”