نودا کا احتجاجی خط؛ جاپان اور جنوبی کوریا بلا ایک دوسرے کے سر ڈالنے میں مصروف

ٹوکیو: جاپان نے جمعرات کو ایک خط واپس لینےسے انکار کر دیا جو اس کے اپنے وزیر اعظم نے بھیجا تھا۔ یہ اس وقت ہوا جب  سئیول نے خط وصول کرنے سے انکار کر دیا، جبکہ جزیروں پر جاری تنازع سفارتی تماشے میں بدلنے کا اندیشہ پیدا ہو رہا ہے۔

جنوبی کوریا نے اس سے قبل کہا تھا کہ وہ یوشیکو نودا کی جانب سے احتجاج کا جواب دئیے بغیر اسے واپس کر دے گا، جس کی وجہ یہ خوف تھا کہ پیغام کو قبول کرنے کا مطلب جزائر پر ٹوکیو کے دعوے کو تقویت دینا ہو گا۔ جزائر پر دونوں ممالک دعوا ہائے ملکیت کرتے ہیں۔

اس بات نے ٹوکیو کو طیش بھرا جواب دینے پر بھڑکا دیا، جس نے الزام لگایا کہ اس کا پڑوسی سفارتی روایات کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

سئیول کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ خط کو بالآخر رجسٹر ڈاک میں رکھ دیا گیا تھا۔

جنوبی کوریائی صدر نے کہا کہ ان کے دورے، جو کسی بھی جنوبی کوریائی صدر کا پہلا دورہ ہے، کا مقصد جاپان پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ 1910 تا 1945 کے نوآبادیاتی تسلط کے دوران جنوبی کوریا پر کی گئی زیادتیوں کو رفع کرے۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.