ٹوکیو: تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اس ہفتے ٹوکیو میں جاری عالمی مالیاتی اجلاسوں کا چین کی جانب سے اعلی سطی بائیکاٹ آنے والے واقعات کی نشاندہی کر رہا ہے، جیسا کہ معاشی طور پر جرات مند بیجنگ مشکلات کا شکار مغربی اقوام کو دکھا رہا ہے کہ اس کے لیے ان کی شرائط کے تحت کھیلنا ضروری نہیں۔
سست ہوتی عالمی بڑھوتری کے ساتھ ترقی یافتہ دنیا میں بہت سے لوگ اب بیجنگ کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ ضروری کام سر انجام دے، اور عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاس اس چیز کے اظہار کے لیے بظاہر اچھی جگہیں تھیں۔
تاہم اگرچہ عالمی مالیات کی نمایاں شخصیات جیسے امریکہ کے ٹموتھی گیتھنر اور جرمنی کے وولف گینگ شئیوبل نے ٹوکیو کو زینت بخشی، چین کے وزیر خزانہ اور مرکزی بینک کے سربراہ اپنے ملک میں ہی رہے۔
آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹائن لیگارڈ نے بیجنگ سرزش کی تھی، اور کہا تھا کہ شرکت نہ کر کے وہ “پیچھے رہ جائے” گا، جبکہ عالمی بینک کے صدر جِم یونگ کِم نے دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ عالمی معیشت کی بہتری کے لیے اپنے اختلافات کو سلجھائیں۔
جاپانی چیزوں کے صارفی بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ چین میں سڑکوں پر مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جیسا کہ اطلاعات کے مطابق اضافی سرخ فیتے کی وجہ سے فرمیں اپنے چینی آپریشنز میں زیادہ رکاوٹیں محسوس کر رہی ہیں۔