ٹوکیو (اے ایف پی): تجزیہ نگاروں نے کہا کہ عقابی شجرے والی لیڈروں کے اقتدار میں آنےکے باوجود، چین، جاپان اور جنوبی کوریا میں قیادت کی قریباً یکے بعد دیگرے تبدیلی مشرقی ایشیا میں کشیدگی کے دور کے بعد ایک نئے آغاز کا موقع فراہم کر رہی ہے۔
ٹوکیو اور سئیول میں پچھلے ہفتے انتخابات اور بیجنگ میں پچھلے ہفتے کمیونسٹ پارٹی کی کانفرنس کے ذریعے لیڈرشپ کے لیے زور آزمائی کا حل نکلنے کے بعد، خطے کی تین سب سے بڑی معیشتیں گویا سخت حصہ پار کر چکی ہیں۔
بیجنگ فارن اسٹڈیز یونیورسٹی میں جاپانی امور کے ماہر زہو وی ہونگ نے کہا، تینوں لیڈروں کے پاس اپنے پیروکاروں کو خوش کرنے کے لیے کم وجوہات ہیں جو انہیں بیرونِ ملک معاملات طے کرنے کے لیے مزید عمل پسند بنا دیتا ہے۔ “چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے مابین تعاون کی مزید گنجائش ہونے کا امکان ہے۔”
تینوں ممالک کو دنیا کی لڑکھڑاتی معیشت اور شمالی کوریا کی جانب سے پچھلے ہفتے کامیاب راکٹ لانچ کے بعد مسائل کا سامنا ہے، جو خطے کے عدم استحکام میں اضافے کا باعث بنا ہے۔
انہوں نے کہا، “ایک بار اگر (جنوبی کوریا میں) ایسا لیڈر اقتدار میں آ جائے جو شمالی کوریا کے لیے زیادہ برداشت کی پالیسی رکھتا ہو، تو چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے لیے متوقع طور پر تعاون کرنا آسان ہو جائیگا”۔