یوکوہاما: جیسا کہ دنیا نے بڑھ چڑھ کر شمالی کوریا کے ایٹمی تجربے پر اس کی مذمت کی، اسی بین الاقوامی سیاسی ردِعمل کی لہروں نے جاپان میں رہنے والے نسلی کوریائی بچوں کی روزمردہ کی زندگیوں میں بھی ہلچل پیدا کر دی ہے۔
جاپان میں قریباً 5 لاکھ نسلی کوریائی باشندے رہتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر تارکینِ وطن اور 1910 تا 1945 میں جاپان کے جزیرہ نما کوریا کے کبھی کبھار وحشیانہ ہو جانے والے قبضے کے وہ افراد شامل ہیں جنہیں زبردستی کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔
ابھی حالیہ عرصے تک نسلی کورین بچوں کے اسکول –جہاں اپنے بچے بھیجنے کے لیے جاپانی عوام کو آزادی حاصل ہے– جاپان میں کسی بھی غیر ملکی اسکول کی طرح مقامی حکومتی امداد وصول کرتے تھے۔
تاہم 12 فروری کے زیرِ زمین ایٹمی دھماکے کے بعد صوبہ کاناگاوا کی مقامی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے علاقے میں واقع 5 ایسے اسکولوں کو 60 ملین ین کی سالانہ سبسڈی بند کر دے گی۔
اس پر اسکول ٹیچر نے کہا ہے کہ جاپانی امداد کی واپسی کا فیصلہ نسلاً کوریائی باشندوں کو شمالی کوریا کی امداد سے جان چھڑانے میں کوئی مدد فراہم نہیں کرے گا۔ (یاد رہے کہ شمالی کوریا جاپان میں آباد کورین باشندوں کی کھلے دل سے امداد کرتا رہا ہے، اور ان میں شمالی کوریا کے لیے نرم جذبات پائے جاتے ہیں۔)