کینبرا/ ہانگ کانگ: پینٹاگون کا ایف 35 جنگی طیارہ ایشیا میں امریکی اتحادیوں کے لیے دردِ سر ہی بن رہا ہے جیسا وہ عمر رسیدہ ہوتے جیٹ لڑاکا طیاروں کو نئے جدید ترین طیارے سے بدل کر چین کے خلاف ایک فوجی ڈھال مہیا کرنے کے خواہشمند ممالک کو اغلباً سات برس کا التوا برداشت کرنا پڑے گا۔
400 ارب ڈالر کا یہ اسلحے کا منصوبہ تکنیکی نقائص، التواء، اخراجات میں اضافے اور اب امریکہ میں فوجی بجٹ کی کٹوتیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہا ہے جیسا کہ واشنگٹن اب خود بھی خریدے جانے والے طیاروں کی تعداد میں کمی کر رہا ہے۔
اور اس کے ساتھ ہی چین کے بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات ٹیکنالوجی، خصوصاً فضائی طاقت کے حوالے سے موجود سبقت کو تیزی سے ختم کر رہے ہیں جو واشنگٹن اور اس کے کچھ ایشیائی اتحادیوں کو 1950 کے عشرے سے چین کی پیپلز لبریشن آرمی پر حاصل تھی۔
چین بھی دو اسٹیلتھ لڑاکا طیاروں جے 20 اور جے 31 کی آزمائشیں کر رہا ہے، اگرچہ فوجی ہوا بازی کے ماہرین کے مطابق وہ رواں عشرے کے اواخر سے قبل باضابطہ طور پر خدمات فراہم کرنے کے قابل نہیں ہو سکیں گے۔ (اسٹیلتھ یا گپت طیارہ ایک ایسا فوجی لڑاکا جہاز ہوتا ہے جو ریڈار کو دھوکا دے سکتا ہے چونکہ اس کے تعمیراتی مادے یا اس کا ڈیزائن ریڈار کو اندھا یا نیم اندھا کر دیتے ہیں۔ایف 35 اسٹیلتھ طیارہ ہے اسی طرح چین بھی اسٹیلتھ طیاروں پر کام کر رہا ہے، دورِ جدید کی تمام فوجی طاقتیں ایسے طیارے تیار کر رہی ہیں یا تیار کر چکی ہیں۔)
اگرچہ (اس سلسلے میں) جاپانی دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹوکیو کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
جاپان ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھا۔ یہ اپنے 200 بوئنگ ایف 15 کے فضائی بیڑے کو اپگریڈ کر رہا ہے، جو اس کا مرکزی لڑاکا طیارہ ہے۔