ٹوکیو: جاپان 1951 سے بجلی کی صنعت کی اصلاح کے سلسلے میں اپنا سب سے جرات مندانہ اقدام اٹھانے جا رہا ہے، جس میں وزیرِ اعظم شینزو ایبے ایک اچھی پوزیشن میں ہیں کہ وہ طاقتور علاقائی اجارہ داریوں کو توڑنے کی لڑائی جیت جائیں گے جو ان کے سیاسی ایجنڈے کے لیے آزمائش بھی سمجھی جا رہی ہے۔
علاقائی اجارہ داریوں سے (بجلی کی) فراہمی کا اختیار چھین کر ایک قومی گرڈ تشکیل دینا مارچ 2011 کے زلزلے، جس نے فوکوشیما بحران کو جنم دیا، کے بعد اور بھی کلیدی اہمیت کا حامل ہے چونکہ اس کے بعد بجلی کی کمی کا شکار علاقوں کو بجلی کی فراہمی میں معذوری نمایاں ہوئی تھی۔
دوسرے مرحلے میں حکومت گھریلو صارفین کے لیے مارکیٹ کو آزاد کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے، جو بجلی ساز کمپنیوں کے لیے کمانے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔
آخری اور سب سے جرات مندانہ مرحلہ یہ ہے کہ 2020 تک تمام اجارہ داریوں کو الگ الگ بجلی ساز اور بجلی فراہم کار کمپنیوں میں توڑ دیا جائے اور قیمتوں پر تمام کنٹرول ختم کر دیا جائے۔
اگرچہ اس کا مقصد بالآخر یہ ہے کہ جاپانی کاروباروں اور ووٹروں کے لیے بجلی کی قیمتوں میں کمی کی جائے، تاہم اس اسکیم کا مسودہ بنانے والوں میں سے ایک (ماہر) ان اصلاحات پر سوال اٹھاتے ہیں کہ آیا ان سے قیمتوں میں واقعی کمی ہو گی یا نہیں۔ (چونکہ امریکہ اور دوسرے ممالک میں یہی کام کرنے کے بعد قیمتوں میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔)