ٹویوآکے: ہوانگ اِن سُوک کے اسکول کی اونچی اونچی کنکریٹ کی دیواریں ایک ایسی دنیا کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں جو بقیہ جاپان سے الگ ہے۔ اس کے ہالوں میں ایک اور زبان گونجتی ہے۔ اپنے چاک والے تختہ سیاہ اور ناپائیدار ڈیسکوں کے ہمراہ کمرہ جماعت ایسے نظر آتے ہیں جیسے 1950، جب یہ اسکول پہلی بار کھولا گیا، کے عشرے سے اب تک ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ایک ایسی قوم میں، جہاں ہوانگ جیسے نسلی کوریائی کئی عشروں سے شدید امتیاز کا نشانہ بن رہے ہیں، ان کے یہ اسکول بھی دائیں بازوں والوں کا نشانہ اور جاپانی عوام کے لیے ایک چیستان ہے۔
اب جاپانی حکومت — صرف انہیں — اسکولوں کو سبسڈی، جو ہائی اسکول کی تعلیم ہر بچے کے لیے قابلِ حصول بناتی ہے، دینا بند کر کے ان کو مزید الگ تھلگ کرنے کے لیے حرکت میں آ رہی ہے۔ اسکول کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس برس کے اوائل میں اعلان شدہ اس دیس نکالے کا اثر ابھی دیکھا جانا ہے تاہم یہ اغلباً داخلے پر اثر انداز ہو گا اور ان اسکولوں کو پہلے ہی درپیش بدنامی میں مزید اضافہ کرے گا۔
انسانی حقوق کے گروہوں کی جانب سے تنقید، کہ حکومت ایک زد پذیر نسلی گروہ کو دھمکا رہی ہے، کے باوجود جاپانی اہلکار کہتے ہیں کہ وہ ان اسکولوں کے “ایک دشمن قوم کے ساتھ تعلقات” پر فکرمندی کی وجہ سے حرکت میں آ رہے ہیں۔ ان کے مطابق حل یہ ہے کہ یہ اسکول مزید جاپانی بن جائیں۔