ٹوکیو: سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کسی کاسمیٹکس جیسے استحکام کی حامل باریک ترین چکی مٹی کی ایک پتلی سی تہہ نے 2011 کے جاپانی سونامی و زلزلے کو بہت زیادہ شدید بنا دیا چونکہ اس نے گریس کی طرح کام کیا۔
محققین کا کہنا ہے کہ پھسلواں، گیلی چکنی مٹی کی تنگ سی پٹی جو ملک کی شمال مشرقی ساحلی پٹی سے پرے دو براعظمی پلیٹوں کے درمیان موجود ہے، اس نے ان دونوں پلیٹوں کو ایک دوسرے پر انتہائی تیز رفتاری اور زیادہ فاصلے تک حرکت کرنے کی اجازت دی جو کہ بیشتر عام زلزلوں سے زیادہ تھا۔
محققین کہتے ہیں کہ یہ تہہ، جو زیادہ تر کاسمیٹک فاؤنڈیشن جتنے باریک اور نمدار مادے سے مل کر بنی ہے، بہت پتلی ہے، یعنی صرف پانچ میٹر جبکہ زلزلیاتی طور پر فعال دیگر براعظمی پلیٹوں کے سرحدی مقامات پر یہ 40 میٹر یا زیادہ چوڑائی میں پائی گئی ہے۔ (یاد رہے زلزلے دو براعظمی پلیٹوں کے ایک دوسرے کے نیچے گھسنے کی وجہ سے پیدا شدہ حرکت کی وجہ سے ہی آتے ہیں۔)
زلزلیاتی طور پر فعال جاپان ہر برس دنیا کے بڑے زلزلوں کا 20 فیصد سہتا ہے۔
تعمیراتی معیارات اونچے ہیں اور جاپانی لوگ زلزلہ ٹکرانے کی صورت میں آڑ لینے کے حوالے سے اچھی مشق کے حامل ہیں، جس کے نتیجے میں دنیا کے دیگر حصوں کے مقابلے میں یہاں اموات کی تعداد اکثر بہت کم ہوتی ہے۔
یہ تحقیق، جو جاپان کی بحری ارضی سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق ایجنسی (جام سٹیک) کے ایک منصوبے کا حصہ ہے، امریکی میگزین سائنس کے جمعے کے ایڈیشن میں شائع کی جانی تھی۔