ٹوکیو: جاپان نے جمعرات کو دو قیدیوں کو پھانسی دے دی، جس سے قدامت پسند وزیرِ اعظم شینزو آبے کے ایک برس قبل اقتدار میں آنے کے بعد سے پھانسی پانے والے قیدیوں کی تعداد آٹھ ہو گئی۔
عوامی رائے شماریوں سے پتا چلا ہے کہ جاپان میں لوگ بہت بڑی تعداد میں سزائے موت کے حامی ہیں اگرچہ یورپی حکومتوں اور انسانی حقوق کے گروہوں کی جانب سے بار بار احتجاج کیا جاتا ہے۔
وزارتِ انصاف کے ڈیٹا کے مطابق، جاپان میں اب 129 قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل جاپان نے ان پھانسیوں کو مسترد کر دیا اور کہا “آبے انتظامیہ کے تحت تیز رفتار پھانسیاں سزائے موت ختم کرنے کے عالمی مطالبات کے بالکل متضاد ہیں”۔
جاپان نے 2011 میں کسی مجرم کو سزائے موت نہیں دی تھی، جو قریباً دو عشروں میں پہلا سال تھا جب ایک بھی پھانسی نہیں دی گئی، جبکہ ملک میں ایک ایسی پالیسی کے منفی و مثبت پہلوؤں پر ایک خاموش بحث جاری ہے جسے وسیع تر عوامی حمایت حاصل ہے۔
2012 میں سات قیدیوں کو پھانسی دی گئی تھی۔