ٹوکیو: قومی انتخابات میں ایک بڑی فتح کے ایک برس بعد جاپانی وزیرِ اعظم شینزو آبے اونچا اُڑ رہے ہیں جیسا کہ معیشت کو بچانے کے لیے ان کے منصوبے نے ملک اور بیرونِ ملک تعریف کمائی ہے، تاہم ان کی زرہ بکتر میں چھید نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
ایک بے نظیر پالیسی ملغوبے، جسے آبے نامکس کہا جاتا ہے، نے بڑھوتری میں مدد فراہم کی جو سال کی پہلی ششماہی میں جی 7 ممالک میں سب سے زیادہ تھی، جس سے بازارِ حصص کی بھٹی دھڑا دھڑ جلنے لگی اور اس نے برسوں کی تفریطِ زر کے لیے پُر امید اختتام پیش کیا۔
“آبے نامکس یقیناً تعریف کی حقدار ہے،” ایوان تسےلی چٹیو نے کہا جو نی گاتا یونیورسٹی آف مینجمنٹ میں معاشیات کے پروفیسر ہیں۔
ایک غیر مقبول سرکاری رازوں کا بل، چین اور جنوبی کوریا کے ساتھ خام کشیدگی، اور ٹوکیو کی ‘چھاپو اور خرچ کرو’ اقتصادی پالیسیوں پر بڑھتے ہوئے شکوک آبے کی مقبولیت کو آزمانا شروع ہو چکے ہیں۔
اگرچہ آبے کا پہلا برس معیشت پر توجہ مرکوز رکھنے میں گزرا، وہ سفارتی محاذ پر لڑکھڑاتے رہے، اور چین اور جنوبی کوریا کے ساتھ تعلقات، جو مختلف علاقائی تنازعات پر تلخ ہیں، خراب ہی رہے۔
آبے کا پہلا برس جا چکا ہے “ہماری توقع سے زیادہ ہموار،” شونیچی نیشی کاوا نے کہا، جو ٹوکیو کی مئےجی یونیورسٹی میں سیاست کے پروفیسر ہیں۔
“تاہم حقیقی آزمائشیں ابھی آگے باقی ہیں — اگلا برس آبے، اور جاپان کے لیے بہت اہم ہو گا۔”