ٹوکیو: جاپان کے اعلی ترین حکومتی ترجمان نے جمعرات کو کہا کہ ٹوکیو 20 برس پرانی ایک تحقیق کی دوبارہ جانچ پڑتال پر غور کرے گا۔ اس تحقیق کے بعد دوسری جنگِ عظیم میں زبردستی جسم فروشی کے معاملے پر سنگِ میل کی حیثیت رکھنے والا معذرت نامہ جاری کیا گیا۔
چیف کیبنٹ سیکرٹری یوشی ہیدے سُوگا اپوزیشن کے ایک انتہائی قدامت پسند قانون ساز کے سوال کا جواب دے رہے تھے۔ مذکورہ قانون ساز نے کہا تھا کہ جنسی غلامی جیسی کوئی شے وجود نہیں رکھتی۔ یہ بات ایشیا بھر میں زمانہ جنگ کی متاثرہ خواتین کے لیے ایک جذباتی معاملہ ہے۔
سوگا نے کہا کہ جاپان 16 کوریائی خواتین سے کیے گئے انٹرویوز کی صداقت کی تصدیق پر غور کرے گا۔ ان خواتین نے کہا تھا کہ انہیں جاپان کی برسرِ پیکار فوج کے لیے زبردستی جسم فروشی پر مجبور کیا گیا۔
یہ بیان دیرینہ ترمیم پسند خیالات اور متاثرہ خواتین کے بیانات پر شکوک و شبہات اٹھانے کے رویے کا عکاس ہے۔ یہ معاملہ یقیناً جاپان اور جنوبی کوریا کے درمیان پہلے ہی پُر تناؤ تعلقات کو مزید بدتر کر دے گا۔
یہ انٹرویو جاپانی حکومت کے اہلکاروں نے سئیول میں جنوبی کوریائی حکومت کی درخواست پر لیے تھے۔ یہ اسی برس بعد ازاں جاری کیے گئے 1993 کے جاپانی بیان اور معذرت نامے کا ایک کلیدی حصہ تھے۔