اوناگاوا: 57 سالہ یاسونو تاکاماتسو ایک اسکوبا غوطہ خوری ٹینک کمر پر اٹھائے ہے اور اس کے بوجھ سے بڑبڑاتا ہے۔ وہ جاپان کی سونامی سے تاراج شدہ ساحلی پٹی کے ساتھ واقع سرد پانیوں میں اترنے کی تیاری میں ہے تاکہ اپنی بیوی کی لاش تلاش کر سکے۔ اس کی بیوی ان ہزاروں افراد میں سے ایک ہے جو تین برس کے بعد بھی لاپتہ ہیں۔
تاکاماتسو پیشے کے لحاظ سے بس ڈرائیور ہے۔ وہ قدرتی طور پر اسکوبا غوطہ خوری سیکھنے کا امیدوار نہیں تھا اور اسے ڈر تھا کہ وہ شاید ایسا نہ کر پائے۔
تاہم جب وہ اپنی بیوی یوکو کے آخری پیغام کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کے ارادوں کو مہمیز ملتی ہے اور وہ سب کچھ کرنے کے لیے خود کو تیار پاتا ہے۔ اس کی بیوی کو 20 میٹر اونچی سونامی کی لہر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس سے قبل وہ ایک مختصر سا پیغام لکھ پائی۔
جمعہ 11 مارچ 2011 کو ایک جحیم زیرِ سمندر زلزلے نے جاپان کو ہلا ڈالا تھا اور اس کے بعد ایک فلک بوس سونامی پیدا ہوا۔ اس سے آدھا گھنٹا بعد 3:21 بجے سہ پہر بھیجے گئے ایک پیغام میں یوکو نے بس اتنا لکھا: “میں گھر جانا چاہتی ہوں”۔
تاکاماتسو نے کہا، “یہ اس کی جانب سے آخری پیغام تھا”۔ “مجھے بہت برا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بھی وہیں کہیں ہے۔ میں اسے جلد از جلد گھر واپس لانا چاہتا ہوں۔”