ٹوکیو: کابینہ نے جمعے کو توانائی پالیسی کی منظوری دے دی۔ پچھلی حکومت نے رفتہ رفتہ ایٹمی بجلی گھر ختم کرنے کی پالیسی بنائی تھی جسے اب اُلٹا دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جو 2011 کی فوکوشیما آفت کے بعد محتاط عوام میں بہت سے حوالوں سے غیر مقبول ہے۔
تاہم یہ منصوبہ شاید ملک کی جاں بلب ایٹمی بجلی کی صنعت کے لیے بہت دیر کر دی مہرباں آتے آتے ثابت ہو۔ ایٹمی بجلی کی صنعت 5 ٹریلین ین کے تخمینہ شدہ خسارے کے نچے دبی جا رہی ہے۔ اس خسارے کی وجہ سے دو ایٹمی یوٹیلیٹی کمپنیاں پچھلے ہفتے حکومتی سرمائے کے لیے درخواست دے چکی ہیں۔
پلانٹ آپریٹروں کو متبادل ذریعے کے طور پر رکازی ایندھن استعمال کرنے پر 9 ٹریلین ین خرچ کرنا پڑ چکے ہیں۔ مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ وہ 1.6 ٹریلین ین کے قریب تخمینہ شدہ رقم ایٹمی بجلی گھروں کو اپگریڈ کرنے کے لیے بھی صرف کر چکے ہیں۔ نئی حفاظتی ہدایات کی روشنی میں اپگریڈ کرنا ضروری تھا۔
رائٹرز کے ایک حالیہ تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ ملک کے 48 بند پڑے ایٹمی ری ایکٹروں میں سے دو تہائی تعداد شاید دوبارہ چل ہی نہ سکے۔ چونکہ اپگریڈ کرنے کی لاگتیں بہت زیادہ ہیں، مقامی طور پر مخالفت پائی جاتی ہے یا زلزلے کے خدشات موجود ہیں۔