پاکستان ایسوسی ایشن جاپان کے انتخابات کے حوالے سے کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں ۔ کالم

پاکستان ایسوسی ایشن جاپان کے انتخابات ۔ الیکشن کمیشن کے ابتدائی فیصلے

محمد انور میمن

پاکستان ایسوسی ایشن جاپان کے انتخابات کے لئے قائم کئے گئے ۸ رکنی الیکشن کمیشن کے پہلے اجلاس کی روداد ، اور اس کے ابتدائی فیصلوں کی تفصیل ، کمیشن کے سیکرٹری کے جاری کردہ بیان سے ملی ۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ کمیشن نے تیز رفتاری کے ساتھ کام بھی شروع کر دیا ہے ، اور دیانتدارانہ اور شفاف انتخابات کروانے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے ۔ اللہ تعالٰی انہیں اپنے اس عزم میں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔

انتخابات کے بارے میں سب سے پہلا اور بنیادی سوال یہ ہوتا ہے ، کہ انتخاب لڑنے اور ووٹ دینے والے افراد کی اہلیت کیا ہوگی ؟ کمیشن نے اپنے پہلے ہی اجلاس میں اس کا شافی جواب دے دیا ، جو یقیناً اچھی پیشرفت ہے ۔ جاپانی قومیت کے حصول کی خاطر پاکستانی قومیت چھوڑنے والے افراد کی وطن سے محبت پر شک نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن وہ چونکہ باضابطہ اور دستاویزی طور پر پاکستانی شہری نہیں ہوتے ، اس لئے پاکستانیوں کی نمائندہ ایسوسی ایشن میں عہدہ رکھنے کی اجازت دینا یقیناً مناسب نہ ہوتا ۔ اس لحاظ سے ایسے سابق پاکستانیوں کو انتخابات لڑنے کی اجازت نہ دینا ، لیکن ووٹ کا حق دینا ، میرے خیال میں انتہائی متوازن فیصلہ ہے ۔

ووٹ ڈالنے کے لئے اصلی ایلین کارڈ دکھانے اور اس کی کاپی جمع کروانے کی شرط بھی ، منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے ایک مناسب شرط کہی جا سکتی ہے ۔ البتہ اس سے غیرقانونی طور پر مقیم پاکستانی شہریوں کے ووٹ ڈالنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں ۔ اگر الیکشن کمیشن نے اس پہلو پر غور نہ کیا ہو ، تو اگلے اجلاس میں انہیں اس موضوع کو دیکھنا چاہئے ۔

کاغذات نامزدگی پر دو حامیوں کے دستخط اور اس کی فیس مقرر کرنے کا فیصلہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے ۔  گو کہ اس سے کمزور مالی حیثیت رکھنے والے پاکستانی شہریوں کے انتخاب لڑنے کی راہ میں مشکل پیش آئے گی ، لیکن ایسی صورت میں مالی طور پر کمزور لیکن قابلیت میں نمایاں شخص کے حامی اس کے لئے چندہ اکٹھا کر سکتے ہیں ۔ اس طرح کمیونٹی کے قابل افراد کو آگے لایا جا سکے گا ، اور وہ اپنی مالی کمزوری کی وجہ سے انتخابات میں شرکت کے حق سے محروم نہیں رہیں گے ۔

الیکشن کمیشن کے ان چند انتہائی مناسب فیصلوں کے بعد ، اب میں ایک ایسے فیصلے کی جانب آنا چاہوں گا ، جو میرے خیال میں مناسب نہیں ہے ۔ کم از کم فی الحال اسے مناسب سمجھنے کی وجوہات ہمارے سامنے نہیں ہیں ۔ وہ معاملہ ہے ، دوسری تنظیموں کے عہدیداروں کے ایسوسی ایشن کے انتخابات لڑنے پر پابندی ۔ کسی بھی معاشرے کے افراد بیک وقت مختلف حیثیتوں کے حامل ہوتے ہیں ، اور ان میں کوئی لازمی ٹکراؤ نہیں ہوتا ۔ ہر معاشرے میں مختلف تنظیمیں بھی ہوتی ہیں ، جنکا دائرہ کار بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر کوئی شخص کسی مخصوص سیاسی جماعت کا رکن بھی ہوتا ہے ، اور اس کے ساتھ ساتھ کسی مذہبی یا سماجی تنظیم کے ساتھ بھی منسلک ہوتا ہے ۔ اور ایسا ہونا نہ خلاف عقل ہے ، نہ خلاف قانون ۔ کسی بھی تنظیم کا رکن ہونا ، عام طور پر مہذب معاشروں میں ہر شہری کا حق تصور کیا جاتا ہے ۔

چنانچہ الیکشن کمیشن کا یہ اعلان کہ کسی تنظیم کے عہدیدار کو پاکستان ایسوسی ایشن کے انتخابات میں حصہ لینے سے قبل ، اپنی تنظیم سے استعفٰی دینا ہوگا ، سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے ۔ پھر یہ بھی دیکھا جانا چاہئے کہ یہ اصول طے کرنے والے الیکشن کمیشن کے معزز اراکین خود بھی مختلف تنظیموں کے عہدیدار ہیں ، اور انہوں نے الیکشن کمیشن کا رکن بنتے وقت اپنی تنظیموں کے عہدوں سے استعفے نہیں دئے ہیں ۔

مثال کے طور پر کمیشن کے معزز سربراہ جناب رئیس صدیقی ، اسلامک سوسائٹی جاپان کے روح رواں ہیں ۔ جنرل سیکرٹری اور کمیشن کے ترجمان ڈاکٹر عمران الحق  ، جاپان مسلم پیس فیڈریشن کے کوآرڈینیٹر ہیں ۔ ایک اور معزز رکن خرم تحسین ، اسلامک سرکل آف جاپان کے نائب امیر ہیں ۔ لیکن ان تمام افراد کے ان دہرے عہدوں کے باوجود ہمیں ان سے بے انصافی کے کوئی خدشات نہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے اپنے تنظیمی عہدوں کو منصفانہ انتخابات کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ نہیں بننے دیں گے ، اور اپنے دونوں کرداروں کو بحسن و خوبی نبھائیں گے ۔ چنانچہ یہ فرض کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ دیگر تنظیموں کے عہدیدار ، پاکستان ایسوسی ایشن کے عہدوں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکیں گے ۔

میں الیکشن کمیشن سے اپیل کرتا ہوں کہ آئندہ اجلاس میں اس شق پر نظرثانی کی جائے ، اور ممکنہ طور پر اسے ختم کیا جائے ۔ اگر کمیشن ، نظر ثانی کے باوجود اسےقائم رکھنا چاہے ، تو  اس کی وجوہات منظر عام پر لائے ، اورپاکستانی کمیونٹی کو اس کے لئے قائل کرے ۔

کمیشن کو انتخابات کا تفصیلی لائحہ عمل بھی  جلد از جلد طے کرنا چاہئے ۔ کاغذات نامزدگی کب سے کب تک ، کہاں اور کس جگہ جمع کروائے جائیں گے ؟  ان پر اعتراضات لگانے کا طریقہ کیا ہوگا ؟ کب سے کب تک ، اور کن اصولوں کی بنیاد پر اعتراضات داخل کئے جا سکیں گے ؟ حتمی فہرست کب جاری ہوگی؟ ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے ، ان تمام مراحل  کی تاریخیں اس طرح طے کی جائیں کہ ان میں بعد میں ردوبدل کی ضرورت نہ رہے ۔ عین موقع پر تاریخوں میں توسیع سے بعض مخصوص  شخصیات کو نوازنے کا تاثر ملتا ہے ، اور الیکشن کمیشن پر عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے ۔

انتخابات کے شفاف انعقاد کے لئے تمام پریفیکچرز میں نمائندے طے کرنے کی ضرورت بھی ہوگی ۔

الیکشن کمیشن کا یہ اعلان خوش آئند ہے کہ تمام اخراجات کی تفصیل ویب سائٹ پر جاری کی جائے گی ۔ تاہم ، میں اس میں اتنا اضافہ کرنا چاہوں گا ، کہ صرف اخراجات کی تفصیل ہی نہیں ، بلکہ اس پورے  عمل کی تمام تفصیلات  ویب پر جاری کی جائیں ، اور یہ نیک کام فوراً شروع کیا جائے ، تاکہ تمام لوگوں کو ہر مرحلے کی تمام تفصیلات سے آگاہی حاصل ہوتی رہے ۔

یہ تجاویز نیک نیتی اور مخلصانہ سوچ کے ساتھ پیش کی گئی ہیں ۔       گر قبول افتد ، زہے عزوشرف ۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.