تاریخ جاپان ، باب اوّل

تاریخِ جاپان

تحقیق و تدوین ۔ ظاہرشاہ آفریدی

جاپانیوں کے ہاں اپنے آغاز کے بارے میں دیگر قومیتوں کی طرح کئى داستانیں موجود ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جنت کے آقا نے اُن کی سرزمین پر دو جوان دیوتاؤں ایزاناگے اور اُن کی بیگم ایزانامے کو بھیجا جنہوں نے سمندر میں سے اُن کیلئے ایک خوبصورت ملک بنا ڈالا۔

ایک ماہرِ اثارِ قدیمہ اور اُس کے معاونین نے پتھر دور کی کچھ نشانیوں کی برآمدگی کا دعویٰ کیا تھا تاہم بعد میں تحقیق سے بات ثابت نہ ہوسکی ۔

ابتدائى دور

تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ چودہ ہزارسال قبل از مسیح سے 300 بی سی تک یہاں جومون دور گزرا ہے اور اُس دور کی تہذیب کے دریافت کیے گئے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ پتھر، سمندری شِلز، لکڑی اور چمڑے کی بنی اشیاء استعمال کرتے تھے اور اُن کی زیادہ تر گزر بسر جنگلی یا سمندری حیات کی شکار پر ہوتی تھی ۔ اس دور کے بارے میں زیادہ تر شواہد 1992 کی اُس کھدائى کے دوران ملے جو ہانشو کے شمال میں واقع آموری علاقے میں بیس بال سٹیڈیم کی تعمیر کیلئے کی جارہی تھی ۔

کچھ ماہرین بشریات کا دعویٰ ہے کہ ہوکائیدو اور ہونشو جزائر کے باسی آئنو قبائل یہاں کے اصل قدیم لوگ ہیں ۔ اِن لوگوں کی آنکھیں بڑی ہیں اور جِسم پر بال زیادہ ہیں جبکہ موجودہ جاپان میں اکثریت آبادی والے جاپانیوں کے جِسم پر بال کم ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ آئنو ، موجودہ روس کے مشرقی سائبریا کا ایک نسلی گروپ ہے ۔ اب آئنو قبائل صرف ہوکائدو ہی تک محدود ہوچکے ہیں اور موجودہ تعداد تقریباً بیس ہزار بتائى جاتی ہے ۔ اُن کی زیادہ تر آبادی، اردگرد کے جاپانیوں کے ساتھ مدغم ہوچکی ہے ۔

چونکہ جاپان کے اردگرد چین اور کوریا کی سرزمین بھی ہے اِسلئے کہا جاتاہے کہ اِن دو اقوام کا جاپانیوں پر گہرا اثر رہا ہے ۔ مثال کے طور پر300 بی سی سے 250 عیسوی تک کے یایوئے دور کے بارے میں اثار قدیمہ کی کھدائیوں سے ملنے والی نشانیوں ، جیسے کپڑا بُننے، دھان کی کاشت ، شامان عقائدِ عبادات ، لوہے اور کانسی کے اوزار سے معلوم ہوا ہے کہ یہ فن چینیوں اور کوریائى لوگوں سے ہی یہاں پہنچا ہے بلکہ اِس بات کے شواہد ہیں کہ چین کے مشہور دریا یانگسی کے اردگرد علاقوں میں چاول کی کاشت آٹھ ہزار قبل از مسیح میں شروع ہوئى تھی اور ایک ہزار بی سی میں یہ جاپانی سرزمین پر پہنچی ۔

یایوئے نسل نے بڑی تعداد میں کوریا کی جانب سے چڑھائى کی ۔ اُنہوں نے آئنو قبائل کے خلاف کئى جنگیں لڑیں ۔ اُن کا دورِ معیشت ، جاگیردارانہ نظام کا ابتدائى دور سمجھا جاتا ہے ۔ اُمراء زمینوں پر قابض تھے اور کسان اور غلام کھیتی باڑی کرتے تھے ۔ علاقوں پر قبضہ جمانے کیلئے قبائل کی آپس میں جھڑپیں روز کا معمول تھا ۔ جاپان کے اِس دور کے اُمراء کو معاشرے میں تعظیم اور سیاسی اثر و رسوخ اِسلئے حاصل تھا کہ اُنہوں نے مسلح جنگجو پال رکھے تھے لیکن اُس دور میں چین میں صورت حال مختلف تھی اور وہاں دانشوروں کو بالادستی حاصل تھی ۔

سنہ 238 عیسوی کے لگ بھگ ، چینی تاجروں نے یایوئے لوگوں سے تجارت شروع کی ۔ چینی تاجر کیوشو کے علاقے میں آتے تھے ۔ اُس وقت چین میں ہان شاہی سلطنت قائم تھی ۔ اُس دور کے سفرناموں اور دیگر ریکارڈ کے مطابق اُس وقت کی جاپانی سرزمین 30 ریاستوں میں بٹی ہوئى تھی اور اِس میں سب سے مضبوط ریاست پر ہیمیکو کی حکمرانی تھی ۔ اُس وقت کے چینیوں نے اِسے سرزمینِ وا یعنی بونے یا پست قامت لوگوں کی سرزمین کے نام سے پکارا ہے جہاں پسماندگی ہے اور لوگ ان پڑھ ہیں اور بانس کی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں ۔ تاہم اُس دور کے جاپانیوں کو اپنی ثقافت پر بڑا فخر تھا اور اِس میں سب سے زیادہ اہمیت مالک سے وفاداری کو دی جاتی تھی ۔ چاول سے تیار کی ہوئى شراب ساکے بھی اُسی دور کی روایت ہے ۔

تاریخ کے طالب علموں کیلئے اُن چینی تاریخی کُتب کی بہت اہمیت ہےجنہیں ٹونٹی فور ہسٹریزکہا جاتا ہے جس میں 3000 بی سی سے 17 ویں صدی کی مِنگ دورِ حکومت تک کا تذکرہ ہے ۔ اتنے پرانے دور کے انسان کے پاس ایسی مہارت نہیں تھی کہ وہ آنے والی نسلوں کیلئے تاریخ کا قیمتی اثاثہ سائنسی بینادوں پر مرتب کرتا اِسلئے اُس تاریخ میں داستانیں رقم کی گئى ہیں اور اُس میں جاپان کا ذکر بھی ہے ۔ ہمیں جاپان کی تحریری تاریخ کا ریکارڈ 57 عیسوی سے ملتا ہے جس کا ذکر چینی تاریخ کے سرکاری دستاویزات میں ہے ۔ یہ ریکارڈ فان یان نے پانچویں صدی عیسوی میں مرتب کیا تھا جس میں چین کے مشرقی ہان شاہی دور کے واقعات کو ریکارڈ کیا گیا ہے ۔

کوفن دور

تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ 250 عیسوی کے آس پاس کوفن دور کا آغاز ہوا ۔ یہ مضبوط فوجی ریاستوں کا دور تھا ۔ اِس دوران ایک گروپ جِسے غالباً ہنس کہاجاتا تھا اور تاریخ میں امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ کوریائى تھے جنہوں نے تسوشیما کے ساحل پر آکر یلغار کی ۔ اُن کے پاس گھوڑے تھے اور وہ لوہے سے بنے اعلی معیار کے اسلحے سے لیس تھے ۔

کوفن دور کی فوجی صلاحیت میں اضافے سے اُن کا شمال مشرقی ایشیاء کی جانب اثر و رسوخ پھیلنے لگا ۔ اب جاپان منظم اور مضبوط ریاست کی شکل اختیار کرتا جارہا تھا اور کوریا کے ذریعے اُس کا براعظم ایشیاء کے دیگر علاقوں کے ساتھ رابطے ہونے لگے ۔ اُس دور میں ایک طاقتور قبیلہ یاماتو بھی تھا اِسلئے کئى مغربی تاریخ دان اِسے یا ماتو دور کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں ۔ اُس دور میں بدھ مت اور کنفیوشنیزم دونوں عقائد کے لوگ تھے ۔ چینی طرز پر مرکزی انتظامی حکومت ، شاہی عدالتی نظام ، مالیاتی پالیسی اور خزانے کا محکمہ تشکیل دیا گیا ۔ کوریا کے تین بادشاہتوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے گئے ۔ سنہ 391 میں جنوب ۔ مغربی کوریا کے بادشاہ پیکچی نے تحفے تحائف بھیجے اور ہمسایہ علاقوں سے بچانے میں مدد کی درخواست کی ۔ اِس مدد کے عوض جاپان کو سونے اور جواہرات کے تحفے دئیے گئے اور ساتھ ساتھ چینی زبان کی ڈکشنری دی اور جاپانیوں کو لکھائى سیکھانے کیلئے اپنے دانشوروں کو بھیجا ۔ چونکہ چینی زبان کے لکھنے کا طریقہ مشکل تھا اِسلئے جاپانیوں نے لکھائى کا اپنا طریقہ بھی وضح کیا ۔

آسوکا دور

سنہ 538 میں آسوکا کا دور شروع ہوچکا تھا ۔ سیاسی اصلاحات شروع ہوچکی تھیں اورفن و ثقافت ترقی کرنے لگی ۔ کوریا کے ذریعے جاپان میں بدھ ازم متعارف ہوچکا تھا جس سے جاپانی معاشرہ بڑی حد تک متاثر ہوا ۔ اب ُملک وا کے بجائے نیہون کے نام سے پہچانا جانے لگا ۔ اُس وقت چین میں تانگ دور حکومت تھی جس کے جاپان کے ساتھ گہرے قریبی روابط استوار ہوئے ۔ اُس دور میں بادشاہ کوئى زیادہ طاقتور نہیں ہوتا تھا بلکہ اصل طاقت دربار کے اُمراء کے پاس تھی ۔ شہزادہ شوتوکُو نے اپنے آپ کو بُدھ مت کی پرچار کیلئے وقف کردیا تھا جس سے جاپانی معاشرے میں تبدیلی آنے لگی اور امن وسکون ظاہر ہونے لگا ۔

نارا دور

جاپان میں 8 ویں صدی عیسوی میں نارا دور کا آغاز ہوتا ہے ۔ اِس سے قبل تک یہ روایت عام تھی کہ جب بادشاہ یا ملکہ کا شاہی محل میں انتقال ہوتا تھا تو روح کے اثر سے بچنے کیلئے وہ محل چھوڑ کرنیا تعمیر کیا جاتا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک مہنگا اور مشکل کام ہوتا گیا ۔ بالاخر جاپانیوں نے سوچا کہ بادشاہ تو چینیوں کے بھی مرتے ہیں لیکن اُنہوں اپنے محل یا دارالحکومت کو نہیں چھوڑا ، لہذا اِس عمل کو روکتے ہوئے نارا میں 710 عیسوی میں ایک مستقل دارالحکومت قائم کیا گیا ۔ یہ چین کے تانگ دور حکومت میں قائم دارالحکومت چانگ آن ، جو آج کل شیان کے نام سے پہچانا جاتا ہے، کے طرز پر بنایا گیا ۔ اِس شہر میں ہزاروں لوگ آباد ہوئے ۔ پکودا بنائے گئے، پارک تعمیر ہوئے اور ساکورا کے درخت لگائے گئے ۔ فن و ادب ترقی کرنے لگا ۔ زبان کی تحریری شکل پر جاپانی شاعری واکا بھی تحریر میں آنے لگی ۔

اقتصادی اور انتظامی معاملات میں اضافہ ہوا ۔ مرکزی دارالحکومت نارا اور صوبائى دارالحکومتوں کے مابین رابطہ سڑکیں تعمیر کی گئیں ۔ ٹیکس کی وصولی شروع ہوئى اور حکومتی سکہ رائج کیا گیا ۔ بدھ ازم اور شنتو ازم کے حوالے سے پائے جانے والے اختلاف کو یوں حل کیا گیا کہ اُس وقت کے بااثر بھکشو گیوگی کو اِس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کا فریضہ سونپا گیا جنہوں نے اماتےراسو نامی عبادت گاہ کے دروازے پر سات شب و روز تک عبادت کی اور رائے طلب کی ۔ بالاخر سورج کی دیوی نے جواب دیا کہ یہ دونوں مذاہب ، ایک ہی عقیدے کے اظہار کے دو مختلف طریقے ہیں ۔ اُس کے بعد جاپان میں بدھ مت کی عبادت گاہیں تعمیر کی گئیں ۔

نارا ایک شاندار دارالحکومت کی شکل اختیار کر گیا لیکن انتظامی امور کمزور تھے ۔ آئنو قبائل اب بھی خطرہ تھے ۔ دوسری جانب بدھ مت کے دو کیو نام کے بھکشو نے ملکہ کوکین کے ساتھ معاشقہ شروع کیا اور ملکہ کو اپنے زیرِاثرکرلیا ۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا روس میں رسپوتین نے اُس وقت کے بادشاہ کی ملکہ کے ساتھ جنسی تعلق بناکر انتظامی امور پر اثرڈالنا شروع کردیا تھا ۔ بعد میں دوکیو نے ولی عہد یعنی کراؤن پرنس کو قتل کرکے خود کو وزیر اعظم اور اعلی ترین بھکشو قرار دینے کا اعلان کیا ۔ اُس کی لالچ یہیں پر ختم نہیں ہوئى اور اُس نے شنتو مذھب کے ہاچی مِن کی عبادت گاہ سے جنگ کے دیوتا کا یہ حکم حاصل کیا کہ اگر اُسے آئندہ کا شہنشاہ منتخِب کیا گیا تو وہ جاپان میں دائمی امن کا وعدہ کرتا ہے ۔ ملکہ کو شک گزرا اور اُنہوں نے ہاچی مِن کے دیوتا سے معلوم کیا کہ کیا یہ درست ہے، تو جواب ملا کہ بھکشو کبھی شہنشاہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اُس کا شجرۀ نسب شہنشایت کا نہیں ہوتا ۔

حقائق معلوم ہونے پر نارا کے اُمراء نے بھکشو سے تمام خطابات واپس لیکر اُسے سزا کے طور پر دوراُفتادہ ایک چھوٹے سے جزیرے پر قید کردیا ۔ اب جاپانیوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ کبھی خاتون کو منصبِ اقتدار نہیں سونپنا چاہیے ۔

ہیان دور

سنہ 784 عیسوی میں دارالحکومت کو نارا سے ناگااوکا منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ تاہم گیارہ سال بعد اِس علاقے کو بد شگون قرار دے کر دارالحکومت کو ہیانکیو منتقل کیا گیا جو آج کل کیوتو کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ یہ نارا کے مندر سے صرف 28 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔

سنہ 795 عیسوی میں ہیانکیو دور شروع ہوتا ہے ۔ اِس دور میں فیشن اور شعر و ادب میں خاصی ترقی ہوئى ۔ عورت کو ریاست کے معاملات ، اقتدار کی رسہ کشی اور سماجی سرگرمیوں میں موقعہ ملنے لگا ۔ اور مشہور داستانِ گینجی بھی موراساکی شیکیبو نامی خاتون ہی نے تحریر کی ۔ جس میں محبت کے کئى قصے رقم کیے گئے ہیں ۔ اِسی دور میں سمورائے جنگجووں کا اثر بڑہنے لگا ۔ اگرچے بادشاہِ وقت مطلق العنان ہوتا تھا لیکن دربار کے اُمراء ہی اصل اختیارات کے مالک تھے اور اُنہیں اپنے مفادات اور اپنے تحفظ کیلئے پولیس گارڈ اور سپاہیوں کی ضرورت ہوتی تھی اور یوں جنگجو طاقتور ہوتے گئے جن میں میناتو ، طائرہ ، فوجی وارا، اور تاچی بانا قبیلوں کو بہت طاقتور سمجھا جاتا تھا۔ 12 ویں صدی کے اواخر میں اِن قبیلوں کے مابین لڑائى نے اُس وقت خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی جب میناتو اور طائرہ قبائل کے مابین کیوتو اور مرکزی حکومت پر قبضہ حاصل کرنے کیلئے لڑائى شروع ہوئى ۔ ہیان دور کے زوال پذیری کے ماہ وسال میں لاقانونیت اور تشدد کا دور دورۀ تھا ۔ جاگیر داروں نے اپنے بیٹوں اور ملازمین کو مسلح کردیا اور تجربہ کار جنگجؤوں کی خدمات کرائے پر حاصل کی گئیں ۔ چونکہ لڑائی میں چھوٹے گروپوں کی شکست یقینی تھی لہذا ، اُنہوں نے اپنے قریب کے بڑے نوابوں کے ساتھ اتحاد کیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اِسی طرح کے جاگیردارانہ نظام کا عکس اُس وقت یورپ میں بھی نظر آرہا تھا کہ جب مرکزی حکومت کمزور پڑتی تھی تو چھوٹی علاقائى طاقتیں امن و عامہ برقرار رکھتی تھیں ۔ اُسی دور میں سمورائے جنگجؤوں کیلئے ایک ضابطہ تحریر کیا گیا جسے بوشیدو کہتے تھے ۔ اِس کا مقصد اپنے مالک سے وفاداری کا عہد تھا ۔ اپنی وفاداری کو نبھاتے وقت اُس کی بیوی ، بچے یا والدین کی محبت تک حائل نہیں ہوگی اور اپنے آقا کیلئے ایک باعزت موت مرنا ہی اُس کی زندگی کا مقصد ہوگا ۔ عورتوں کیلئے بھی یہی اصول تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو اُنہیں بھی اپنے شوہروں کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے ایسی ہی موت قبول کرنی ہوگی ۔

فوجیوارا قبیلے کی زوال پذیری سے پیدا ہونے والا خلاء ، طائرہ اور میناموتو قبائل نے پُر کیا ۔ اِن دونوں کے درمیان لڑی جانے والی پہلی جنگ 1156 سے 1160 تک چلتی رہی اور طائرہ کو فتح نصیب ہوئى ۔ اُس کے سربراہ ، کیوموری نے کیوتو کی جانب پیش قدمی کی اور بعد میں اپنی بیٹی کی شادی شاہی خاندان کے ایک شہزادے سے کرائى ۔ کیوموری کے مخالفین کو بے دردی سے قتل کیا گیا اور اُن کی جائدادیں ضبط کرلی گئیں تاہم میناموتو ، موجودہ ٹوکیو کے مغرب میں واقع زرخیز علاقے کانتو کی جانب بچ نکلا ۔ جو اُس وقت کیوتو کی مرکزی حکومت سے خاصا دور علاقہ تھا اور وہ اُس پر مضبوط کنٹرول نہیں ہوسکا ۔

تاریخ دان ، طائرہ کی دارالحکومت کی جانب پیش رفت کو اُس کے زوال کا سبب گردانتے ہیں اور اِسے انتہائى مہلک غلطی تصور کرتے ہیں کیونکہ وہ کیوتو کے علامتی جاہ و جلال میں کھوگئے تھے ۔ دوسری جانب میناموتو نے ایک بار پھر اپنی طاقت حاصل کرنا شروع کردی ۔ سنہ 1180 میں اُن کی فوجوں نے جنوب ۔ مغرب کی جانب پیش قدمی کی اور یکے بعد دیگرے فتوحات حاصل کیں اور یوں کرتے کرتے سنہ 1185کی ایک بحری جنگ میں طائرہ قبیلے کو مکمل شکست ہوئى ۔

کاما کورا کا دور

اپنے آخری حریف کے خاتمے کے بعد ، میناموتو قبیلے کے اُس وقت کے سربراہ یوری تومو نے کاماکورا میں اپنا فوجی اڈہ قائم کرتے ہوئے ایک جاگیردارانہ عسکری آمریت کی بنیاد ڈالی ۔ کاماکورا، سابق دارالحکومت کیوتو کے مشرق میں 300 میل کے فاصلے پر واقع ہے ۔ اِس حکومت کو باکوفو کہتے تھے ۔

سنہ 1192 میں شہنشاہِ جاپان نے یوری موتو کو شوگن یعنی فوج کے سربراہ کا خطاب دیا جس نے اپنے اقتدار کے دوران صوبوں کو نیم خودمختاری دی ۔ اُس وقت کے شہنشاہ کا عمل دخل صرف دربار کی حد تک تھا جبکہ فوجداری، عسکری اورعدالتی امور پرگرفت شوگن کی ہوا کرتی تھی ۔ گو کہ اُس کی حکومت قومی سطح کی نہیں تھی لیکن وہ ایک بڑے علاقے پر قابض رہا اور حقیقی اختیارات اُسی کے پاس تھے ۔ اُس نے مرکزی اور مغربی جاپان میں واقع طائرہ قبیلے کی جائیدادوں پر قبضہ کرلیا ۔ تاہم وہ شمال میں فوجیوارہ اور مغربی حصے کو فوجی کنٹرول میں لانے میں ناکام رہا ۔

اگرچہ یوری موتو نے کسی حد تک ایک مضبوط حکومت قائم کرلی تھی لیکن پھر بھی اُس پر اپنے قریبی رشتہ داروں اور بھائى کی جانب سے اقتدار سے بیدخلی کا خوف ہر وقت چھایا رہتا تھا ۔ وہ جاسوسوں سے بچنے اور کسی بھی بے یقینی کا مقابلہ کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتا تھا ۔ اُس نے جو نظام اپنایا تھا اُس سے وہ اور اُس کا اقتدار تومحفوظ رہا لیکن وہ اپنا ایک اچھا سا جانشین تیار نہ کرسکا اور سنہ 1199 میں اچانک انتقال کے بعد اُس کے بیٹے یوری نے شوگن کا خطاب اور اپنے میناموتو قبیلے کی سربراہی حاصل کی ۔ لیکن اُس میں صلاحیتوں کی کمی تھی اور وہ مشرق میں آباد بوشی خاندانوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا ۔

13 ویں صدی کے اوائل میں اُسکے ننھیال کا اثر بڑہنے لگا اور اُس کی والدہ ماساکو نے اپنے خاندانی قبیلے ہوجو کیلئے شوگن کے خطاب کا دعویٰ کردیا ۔

سنہ 1221 میں کیوتو اور کاماکورا کے مابین جنگ لڑی گئى جس میں ہوجو کی فوجوں نے باآسانی فتح پائى اور شاہی دربار کو براہ راست باکوفو کے کنٹرول میں لے لیا ۔ اب اُنہیں پہلے کی نسبت زیادہ اختیارات ملے اور شاہی دربار کو ہر کام کی کامورا کی حکومت کی جانب سے منظوری ضروری قراردى گئی ۔

کاماکورا کے دور کو خوشحالی اور ترقی کا دور کہاجاتا ہے ۔ چین کے ساتھ ساڑھے تین سو سال کے وقفے کے بعد تجارت شروع ہوئى ۔ کیوتو اور کاماکورا کے بیچ میں تجارت و کاروبار کو فروغ دیا گیا ۔ عسکری بہادری کے بارے میں مصوری اور داستان گوئى کی ثقافت ملک بھر میں مشہور ہوئى ۔ لیکن مذہبی لحاظ سے کئى پیچیدگیاں پیدا ہوئیں ۔ بھارت اور چین کی طرح جاپان میں بھی نظریات کے حوالے سے بُدھ ازم کے مختلف مسلک یا فرقے معرضِ وجود میں آئے ۔ جاپان میں بُدھ ازم کے اُس فرقے کو قبول کیا گیا جس کا آغاز چین سے ہوا تھا ، جس میں سب سے مشہور زین ہے ۔ بعد میں جاپانیوں نے اپنے مسلک بھی بنائے جِس میں مشہور جودو تھا ۔

دوسری جانب، باکوفو کے چین اور کوریا کے ساتھ باہمی تعلقات کافی کمزور تھے اور روابط کچھ زیادہ نہ تھے ۔ اگرچہ جنوبی چین کے ساتھ کسی حد تجارتی روابط تھے لیکن جاپانی بحری قزاقوں کی وجہ سے کھلے سمندر پُرخطرتھے ۔ اُسی دور میں یوریشیا کے زیادہ تر علاقے پر منگولوں کی حکمرانی تھی ۔ سنہ1286 میں یہ خبریں منظر عام ہونے لگیں کہ چین پر بھی منگول قابض ہوچکے ہیں ۔ چنگیز خان کے پوتے قُبلائى خان نے خراج وصول کرنے کیلئے شاہِ جاپان کو ایک مراسلہ بھیجا اور کہا کہ اگر سلطنتِ یوآن کو خراج پیش نہیں کیا گیا تو پھر انتقامی کاروائى کیلئے تیار ہوجاؤ ۔ کاماکورا کی حکومت نے جواب نہیں دیا لیکن کیوشو علاقے کے قریبی ساحلی علاقوں پر دفاعی اقدامات شروع کردئیے گئے۔ مقامی جنگجؤوں کو چوکس کردیا گیا ۔ کوریا میں موجود جاسوسوں نے منگولوں کی فوجی سرگرمیوں پر نظر رکھنی شروع کردی ۔

بالاخر جس حملے کا خطرہ تھا وہ سنہ 1274 میں ہوگیا ۔ کوریا کے بنائے ہوئے تین سو بڑے بحری جہازوں اور چار سو سے پانچ سو تک چھوٹی کشتیوں پر سوار پندرہ ہزار منگول اور چینی سپاہی اور آٹھ ہزار کوریائى جنگجو حملہ آور ہوئے ۔ سمورائے چونکہ مقامی علاقے کی کیفیت سے آگاہ تھے اِسلئے اُنہوں نے ابتداء میں سخت مزاحمت کی لیکن بازی پھر بھی منگولوں کے حق میں پلٹی ۔ جس رات اُنہیں مکمل فتح نصیب ہونے والی تھی اُسی رات سمندر بپھر گیا اورتند و تیز موجوں نے منگولوں کی کشتیوں کو تہس نہس کردیا اور یوں اُن کی کمر ٹوٹ گئى ۔

حملہ آور منگول تو بے مراد ہوکر واپس لوٹے ، لیکن کاماکورا شوگن کو پھر بھی فکر لاحق تھی کہ منگول دوبار حملہ کرسکتے ہیں ، لہذا، اِس خطرے کے پیش نظر دفاعی امور پر زیادہ توجہ دی جانے لگی ۔ کیوشو علاقے کے سمورائے کو بہتر انداز میں منظم کیا جانے لگا ۔ قَلعے اور پتھروں کی دیواریں تعمیر کی جانے لگیں ۔ اُن تمام علاقوں پر خصوصی توجہ دی گئى جہاں سے حملہ آوروں کے داخل ہونے کا امکان ہوسکتا تھا ۔ مذھبی عبادات بڑھا دی گئیں ۔ جن سمورائے نے منگول جارحیت کا دلیری سے مقابلہ کیا تھا اُنہیں انعامات سے نوازا گیا ۔

اگرچے قُبلائى خان پہلی یلغار کی ناکامی پر تھک گیا تھا لیکن منگولوں نے اپنے مشن سے پیچھے ہٹنے کا ابھی پوری طرح فیصلہ نہیں کیا تھا اور سنہ 1281 کے موسم بہار میں چینی بحری بیڑے کے ذریعے حملہ کیا گیا جس میں کوریائى بیڑا بھی شامل تھا ۔ کئى علاقوں پر خونریز جھڑپیں ہوئیں جِسے جنگ کوئن کہتے ہیں ۔ منگول افواج کو واپس اپنے بحری جہازوں کی جانب دھکیل دیا گیا ۔ اِسی دوران کیوشو کے ساحل پر ایک خوفناک سمندری طوفان اُمڈ آیا جس نے حملہ آور فوجوں کے چھکے چھڑا دئیے اور بحری بیڑا اور کشتیاں تِتربِتر ہوگئیں ۔ منگول سات سال کی مدت کے دوران اپنی منصوبہ بندیوں اور حملوں میں ناکامی کے بعد واپس ہوئے ۔ یہ اُن کی تاریخ کی بدترین شکست تھی ۔ جاپانیوں کے عقیدے کے مطابق کامی کازے یعنی مقدس طوفان نے اُن کی سرزمین کو بچا لیا ۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ کیوشو کے علاقے میں مضبوط دفاعی حکمت عملی نے بھی منگولوں کو فتح حاصل کرنے سے دور رکھا ۔

منگولوں کے ساتھ اِس جنگ نے جاپان کی معیشت پر منفی اثر ڈالا کیونکہ یہ دفاعی جنگ تھی اور اِس کے بدلے میں کچھ نہ ملا ۔ جاگیر داروں نے ٹیکس دینے سے انکار کردیا جس سےحکومت کی آمدنیوں میں بڑی کمی آئى اور غربت بڑھ گئى تھی یوں کاماکورا کی حکومت لڑکھڑانے لگی اور روز بروز کمزور ہوتی چلی گئى ۔

انہی بدتر حالات میں سنہ 1318 میں ایک اور لیڈر، گو دائگوتِننو نے جاپان کے 96 ویں شہنشاہ کی حثیت سے تاج و تخت سنبھالا ۔ سنہ1333 میں ھوجو نے کاماکورا سے اپنے ایک جرنیل آشی کاگاتاکوجی، کو کیوتو پر حملہ کرنے کیلئے بھیجا لیکن اِسی دوران اُس کے ذہن میں فتور آیا اوراُس نے بے وفائى کرتے ہوئے شہنشاہ کی حمایت کا اعلان کردیا اور واپس کاماکورا کی جانب لوٹا آیا ۔

کئى جاگیرداروں اور سمورائے جنگجؤوں نے اِس جرنیل کی تائید کی اور اُنہوں نے حملہ کرکے اپنے آقا کی حکومت اور فوجی دارالحکومت کو تباہ و برباد کردیا ۔

شہنشاہ گو دائگو ایک مضبوط آمریت کی بنیاد رکھتے ہوئے مشرق کا ایک بڑا حکمران بننا چاہتے تھے ۔ اُن کی خواہش تھی کہ چین کی طرح کی بادشاہت قائم کریں ۔ سنہ1335 میں شہنشاہ گودائگو اور جرنیل آشی کے مابین اُس وقت اختلافات پیدا ہوئے جب وہ ناکاسیندائى باغیوں کو کچلنے کیلئے بغیر شاہی فرمان کے مشرقی جاپان روانہ ہوا ۔ شاہی دربار نے اُسے نافرمانی کی سزا دینے کیلئے لشکر بھیجا لیکن آشی کاگا تاکوجی نے اُسے شکست دی ۔ شہنشاہ نے مزید دو کمانڈروں کی قیادت میں فوج بھیجی اور بالاخر آشی کو شکست ہوئى اور وہ کیوشو بھاگ نکلا ۔ لیکن اُس سے زیادہ دیر شکست برداشت نہیں ہوئى اور دوبار اپنی فوج کی صف بندی کرکے دارالحکومت کیوتو پر حملہ آور ہوا ۔ شاہی فوج کو شکست ہوئى اور شہنشاہ گو دائگو بھاگ نکلا ۔ آشی نے قابل بھروسہ ایک کٹھ پُتلی شہنشہاہ مقرر کیا اور خود شوگن یعنی سمورائے کے انچارج کا خطاب حاصل کیا ۔

اب آشی کاگا تاکوجی ، اپنے ہمنواؤں اور وفاداروں سمیت دارالحکومت کیوتو میں براجمان تھا ۔ یہاں کی عیاش زندگی نے اُسے کمزور کردیا اور اُس کی گرفت دیگر علاقوں پر کمزور پڑ گئى تھی ۔ بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ اِس بغاوت کے تقریباً 270 سال تک ،جاپان میں نہ تو کوئى ایسا شہنشاہ اور نہ ہی ایسا شوگن پیدا ہوا جس کا پورے ملک پر کنٹرول ہو ۔ صرف دارالحکومت کیوتو کے حدود تک اُن کے اقتداراعلی کا اثر و رسوخ رہا ۔ ملک کے دیگر علاقوں میں مقامی جاگیر داروں جنہیں دائیمو کہا جاتا تھا، کا قبضہ رہا ۔ وہ اپنے علاقے کے قوانین خود مرتب کرتا تھا اور ہمسایوں کے خلاف جنگ و امن کے فیصلوں میں خود مختار تھا ۔ وہ مرکزی حکومت کو ٹیکس کی ادائیگی بھی نہیں کرتا تھا ۔

چودویں صدی میں تو یہ حالت اِس نہج پر جا پہنچی کہ دو حریف شہنشاہوں میں رسہ کشی ہوتی رہی ۔ مقامی جاگیرداروں کی مرضی پر منحصر تھا کہ وہ کس وقت کونسے شہنشاہ کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں ۔ اِسی میں موروماچی کا دور بھی رہا جس دوران چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی جنگیں جاری رہیں ۔ پندرھویں اور سولہویں صدی کو انتہائى خون خرابے والا خانہ جنگی کا دور کہا جاتا ہے ۔ اب وفاداری نام کی کوئى چیز نہیں رہی تھی اور جاسوسی ، دھوکہ ، بغاوت اور بے دردی سے قتل و غارت کرنا زیادہ عام تھا ۔

ایسے وقت میں جب جاپان اندرونی خانہ جنگی کا شکار تھا یورپی ممالک نے دور اُفتادہ خطوں میں اپنی مہم جوئى شروع کرلی ہوئى تھی ۔ مارکوپولو 200 سال قبل کئى علاقوں کو دیکھ چکا تھا یا کئى کا ذکر سن چکا تھا ۔ جب کرسٹوفر کو لمبس نے کیوبا دریافت کیا تھا تو اُس وقت اُس نے یہ سوچا کہ شاید یہ جاپان ہے ۔

سنہ1543 میں پُرتگال کے تین سوداگر ایک چینی بحری جہاز پر سوار کیوشو کے جنوب میں واقع ایک چھوٹے سے جزیرے تانیگاشیما پہنچے ۔ وہ اپنے ساتھ باردوی بندوقیں لیکر آئے تھے جو جاپانیوں نے پہلی بار دیکھیں اور ہاتھوں ہاتھ خرید لیں ۔ یہ جنگ کی یقینی کامیابی کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہوسکنے والا جدید ہتھیار تھا ۔

پرتگالیوں کو بھارت اور جنوب مشرقی ایشیاء میں تیزگرمی کی نسبت جاپان زیادہ خوشگوار ملک محسوس ہوا ۔ اُنہیں چین کی سرزمین بھی پسند تھی لیکن چینی لوگوں نے یورپ کے لوگوں کے ساتھ بیماری جیسا سلوک کرتے ہوئے اُنہیں صرف جنوبی بندرگاہ تک ہی محدود رکھا ۔ اُن کے خیال میں جاپان میں جاگیردارانہ نظام اور لوگوں کی دوست مزاج طبعیت کی وجہ سے اُنہیں سمجھنا آسان تھا ۔

سنہ1549 میں سپین سے پہلا عیسائى مبلغ جاپان کی سرزمین پر پہنچا اور ابتداء ہی میں کئى لوگوں نے عیسائیت قبول کرلی ۔ یورپی سوداگروں اور عیسائى مبلغین کو اُس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جب مقامی عمائدین ایک دوسرے کے خلاف لڑتے تھے ۔ غیر مُلکی مبلغوں کے جانے کی صورت میں مقامی عیسائى دعوتِ تبلیغ کا کام کرتے تھے ۔ سنہ1569 میں شمال مغربی کیوشو کے ایک جاگیردار نے اپنے پندرہ سو نوکروں سمیت عیسائیت قبول کی اور غصہ میں آ کر بدھ مت کے ایک مقامی مندر کو آگ لگادی اور اِسی مقام پر چرچ تعمیر کیا ۔ جاگیردار کا یہ شہر ناگاساکی بعد میں یورپی تاجروں اور عیسائیوں کیلئے ایک نمایاں مقام بنا ۔

جاپانی لوگ سوائے آئنو قبیلے کے تمام ایک نسل، ایک زبان اور ایک ثقافت والے ہیں لہذا اگر کوئى رہنماء اِن کو متحد کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتا تو یہ اتنا کٹھن ہدف نہ ہوتا ۔ سولہویں صدی میں تین نامور رہنماء گزرے ہیں جنہوں نے ملکی اتحاد میں اہم کردار ادا کیا ۔ اِن میں اُدانوبوناگا، تویوتومی اور توکُوگاوا ائیاسو شامل ہیں ۔ یہاں سے ایک سیاسی قیادت تلے جاپان کے عسکری وحدت اور استحکام کا عمل شروع ہوا ۔ پہلے اُدا نوبوناگا نے کئى مہم چلائیں جس دوران جاپان تقریباً متحد ہوگیا تھا اور جسے اُن کے جرنیلوں میں سے ایک جنرل تویوتومی ہیدے یوشی نے پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔

سنہ1568سے 1600 تک کے دور کو آزوچی مومویاما کا دور کہتے ہیں ۔

نوبوناگا ، نے سنہ1568 میں کیوتو پر قبضہ کیا اوراُس نے عسکری قیادت کے عہدے شُوگن پر ایک کٹھ پُتلی سپہ سالار مقرر کیا ۔ نوبوناگا، نے اپنے مخالفین کو بُری طرح کُچل ڈالا ۔ چونکہ کسی مذہبی عقیدے کے ساتھ اُن کی وابستگی نہیں تھی اِسلیے بدھ مت کے بھکشو اُن کیلئے رکاوٹ ِ راہ بن رہے تھے ۔ لہذا، اُنہوں نے ایسے عناصر کی بیخ کنی کیلئے تمام حربے استعمال کیے ۔ فطری طور پر اُنہوں نے دشمن کو زیر کرنے کیلئے عیسائى پیروکاروں اور مبلغین کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوششیں شروع کیں ۔ مغربی لباس، فن مصوری اور طرزِ معاشرت کی حوصلہ افزائى کی ۔ عیسائیوں کو قصبوں میں چرچ تعمیر کرنے کی اجازت دی ۔ عیسائی مبلغین نے عیسائیت قبول کرنے والوں کی تعداد میں بڑا اضافہ کرنے کیلئے نوبوناگا کو بھی عیسائیت کے دائرے میں لانے کی کوشش کی مگر اُس نے عیسائیت قبول نہیں کی، تاہم عیسائى مبلغین کو وہ تمام سہولیات اور مراعات دیں جو وہ چاہتے تھے ۔ کہا جاتا ہےکہ جب نوبوناگا کا انتقال ہوا تو اُس وقت تک جاپان میں عیسائیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ چکى تھی جبکہ ملک کی کل آبادی دو کروڑ تھی ۔

سنہ1580 تک وہ وسطی ہانشو کا زیادہ تر علاقہ متحد کرچکا تھا ۔ دو سال بعد 1582میں نوبوناگا کے ایک منصب دار نے اُسے کیوتو کے مندر میں ہلاک کردیا لیکن یہ منصب دار اپنے آقا کی حکومت پر قبضہ نہ کرسکا کیونکہ جب یہ خبر جنرل ہیدے یوشی تک پہنچی، جو اُس وقت ایک مخالف سے مزاکرات میں مصروف تھا واپس کیوتوآیا اور قاتل کا کام تمام کردیا ۔ ہیدے یوشی مخالفین کیساتھ مذاکرات پر یقین رکھتا تھا ۔ اُس نے سنہ1590 میں آخری معرکہ فوجی پہاڑ کے نزدیک اوداوارا کے علاقہ میں لڑا جہاں اُس نے اپنے دور کے طاقتور خاندان ھوجو کے قلعے پر قبضہ کیا ۔

اب، ہیدے یوشی کو عیسائیوں کی بڑھتی طاقت کی فکر لگ گئى تھی ۔ اُس نے عیسائی مبلغین کے نام ایک سوال نامہ ارسال کیا کہ ایک مرد کیلئے ایک ہی عورت سے شادی کی پابندی کیوں ہے ؟ جبراً مذہب تبدیل کروانے کا کیا جواز ہے ؟ بدھ مت کے پیروکاروں کو کیوں قتل کیا گیا اور اُن کی عبادت گاہوں کو تباہ کیا گیا ؟ عیسائی ، بھیڑ بکریوں جیسے مفید جانوروں کو کیوں کھاتے ہیں ؟ سوداگر،جاپانی لوگوں کو غلام بناکر فروخت کرنے کیلئے کیوں باہر بھیجتے ہیں ؟

اِس سے پہلے کہ عیسائى پادری اِن سوالات کا جواب دیتا، ہیدیوشی نے تمام عیسائى مِشنوں کو جاپان چھوڑنے کا حکم دیا ۔

اُس وقت جاپان میں جنگجووں کی تعداد ضرورت سے زیادہ تھی اِس لیے ہیدی یوشی نے اِنہیں کام میں لاتے ہوئے کوریا، چین اور یہاں تک کہ ہندوستان اور فلپائن کو فتح کرنے کی نیت سے کوریا پر چڑھائى کی ۔ سنہ1592 میں ایک لاکھ 60 ہزار سمورائے جنگجووں نے کوریا پر حملہ کیا اور محض چھ ہفتوں میں کوریا پر قبضہ کرلیا ۔ تاہم کوریا کی بحریہ نے اپنے نئے بحری جہاز سے سمندر کے بہت سے علاقے کا موثر دفاع کیا ۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے چین نے اپنی فوجیں کوریا بھیج دیں ۔ چین کو بھی دو بار شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن مذاکرات نہ ہوسکے اور حالات جمود کا شکار ہوگئے۔ اِسی دوران سنہ1597 میں ہیدے یوشی نے مزید ڈیڑھ لاکھ فوجیں روانہ کیں ۔

اب جبکہ جنگ کا آغاز ہوگیا تھا کہ اِسی دوران ہیدے یوشی کی صحت خراب ہوگئى تو اُس نے پانچ رہنماؤں پر مشتمل کونسل کا اجلاس بُلایا اور اپنے پانچ سالہ بیٹے کو جانشین مقرر کرکے اِن رہنماؤں کو اقتدار سنبھالنے میں معاونت کی درخواست کی ۔ شدید علالت کے باعث، ہیدے یوشی کا تین ماہ بعد 18 ستمبر 1598 کوانتقال ہوگیا ۔ اِس کے بعد سمورائے جنگجووں نے جاپان واپسی کی، لیکن اِس مہم جوئى سے جاپان، کوریا اور چین کو پہنچنے والا نقصان پہلے سے کہیں زیادہ تھا ۔

پانچ سال کی عمر کا بچہ ہیدے یوری، بے اختیار تھا اور اصل طاقت دوسرے رہنماؤں کے پاس تھی۔ ہیدے یوشی کے انتقال کے بعد، توکوگاوا ا ئیاسو، سب سے طاقتور جاگیردار رہ گیا تھا ۔ اُس کی جاگیر، ہیدیوشی کے خاندان سے بھی زیادہ تھی ۔ اردگرد کے جاگیرداروں نے اُسے شکست دینے کی کوشش کی مگر سنہ1600 کی جنگ سیکیگاہارا میں اُن سب کو شکست ہوئى ۔ اور توکوگاوا ائیاسو نے ہیدے یوری کو اقتدار سے بے اختیار کردیا اور جاگیردارانہ بنیادوں پر سخت حکومت قائم کی ۔

وہ انتہائى ہوشیار، شاطر اور ظالم حکمران تصور کیا جاتا رہا ہے ۔ اُس نے دارالحکومت کیوتو کی طرح کی پرسکون زندگی کو بالکل پسند نہ کیا اور دارالحکومت ایدو میں قائم کیا ۔

ایدو دور

ایدو دور سنہ1603 سے سنہ1868 تک رہا ۔ ائیاسو، جاپان کی تاریخ کا کامیاب ترین حکمران مانا جاتا ہے ۔ اُس نے غداری سے کئى جنگیں جیتی تھیں ۔ اگرچہ جاپان میں ہمیشہ سے شہنشاہ ، ملک کا علامتی سربراہ ہوتا تھا لیکن اصل طاقت اور اختیار شوگن یعنی فوج کے سربراہ کے پاس ہوتا تھا لیکن ائیاسو نے جاگیر داری اور شہنشاہیت دونوں کی روایات پر مبنی نظام حکومت تشکیل دیا ۔ وہ ہیدے یوشی کی طرح پہلے تو عیسائیوں کیلئے دِل میں نرم گوشہ رکھتا تھا لیکن پرتگالی اور ہسپانوی سوداگر وہاں جاتے تھے جہاں کیتھولیک مشنری اُنہیں جانے کا کہتے تھے ۔ ائیاسو نے ہسپانیہ کے ساتھ تجارتی معاہدوں کیلئے مذاکرات کرنے چاہے لیکن ہسپانیہ نے جاپانی جہازوں کو فلپائن یا میکسیکو کی بندرگاہوں پر جانے کی اجازت نہیں دی ۔ بعد میں ائیاسو کو معلوم ہوا کہ عیسائیوں میں ایک سے زیادہ فرقے ہیں۔ اِسی دوران سنہ1600 میں ایک ولیندیزی لیفدے نامی بحری جہاز جاپان کے کیوشو علاقے میں لنگر انداز ہوا ۔ اب جاپانیوں کو کیتھولک عیسائیوں کے بارے میں بھی علم ہوا ۔ مقامی جاگیرداروں نے ولندیزوں کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا ۔ بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں بدھ ازم سے خطرہ نظر آنے لگا وہاں عیسائیوں کے بھی تیور بدلنا شروع ہوئے ۔

ائیاسو نے آخر کار سنہ1612 میں ایک حکمنامہ جاری کرتے ہوئے عیسائیت پر پابندی لگا دی ۔ تمام عیسائی تبلیغیوں کو فوری طور پر ملک چھوڑنے اور تمام جاپانی عیسائیوں کو بدھ مت قبول کرنے کا حکم دیا ۔ کئى نے ملک چھوڑ دیا اور کئى روپوش ہوگئے ۔ بہت سے جاپانی عیسائیوں کو تہ و تیغ کیا گیا ۔ مغربی ممالک کے ساتھ روابط میں کمی لائى گئى اور جاپانیوں کے غیر ممالک جانے پر پابندی لگادی ۔ نجی طور پرایسے بحری جہازوں کی تیاری پر پابندی لگائى گئى جو دور سمندر تک کا سفر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ سنہ1637 میں ناگاساکی کے قریب ہزاروں عیسائی مزارعوں نے خونریز بغاوت کی کیونکہ پرتگال نے اِس بغاوت کی کھلم کھلا حمایت کی ۔ اِس کے آئندہ چار سالوں میں تمام یورپیوں کو ملک سے بے دخل کردیا گیا، ماسوائے کچھ ولندیزی سوداگروں کے جنہیں ناگاساکی کی بندر گاہ تک محدود رکھا گیا ۔

ایک ولندیزی بحری جہاز کو سال میں ایک بارجاپان آنے کی اجازت دی گئى ۔ اور جاپانی دانشور، ولندیزوں کے علم و دانش یعنی حساب، سائنس اور طب میں ہونے والی جدید ترقی کے بارے میں علم حاصل کرتے تھے ۔ جاپان کی دُنیا سے تنہائى کا یہ عمل آئندہ دو صدیوں تک چلتا رہا ۔

توکو گاوا ائیاسو ، نے سخت گیر نظام قائم کیا ۔ عوامی حرکت کو محدود رکھا اور ہر کسی کو ایک خاص کام و مقام تفویض کیا اور مزارعوں سے سر اٹھانے کے ہمت چھین لی گئى ۔ چھوٹے جاگیرداروں کو شادی کرنے، جانشین منتخب کرنے، یا اپنا نجی قلعہ مرمت یا تعمیر کرنے کیلئے حکومتی اجازت نامہ ضروری تھا۔ مخالف جاگیر داروں کو سڑکوں ، مندروں اور قلعوں کی تعمیر و مرمت کی ذمہ داری دی گئى ۔ اُنہیں ہر دو سال میں ایک بار دارالحکومت ایدو آنے کا پابند کیا ۔ اُن کے خاندانوں کو ایک طرح سے یرغمال بنایا کیونکہ اُنہیں سوائے اپنے علاقے کے کہیں دوسری جگہ رہنے کی اجازت نہیں تھی ۔

دارالحکومت ایدو کا علاقہ تیزی سے پھیلتا گیا اور اِس کی آبادی پانچ لاکھ تک جا پہنچی ۔ دارالحکومت کی جانب آنے والے تمام راستوں پر نگران چوکیاں تعمیر کی گئیں اور دارالحکومت کی جانب کسی بھی قِسم کے ہتھیاروں کی سمگلنگ پر کڑی نظر رکھی جانے لگی تاکہ کسی بھی قِسم کے بغاوت کا امکان نہ رہے ۔

سمورائے کی عزت کی جاتی تھی لیکن اب وہ معاشرے میں زیادہ ضروری نہیں سمجھے جاتے تھے، جس کی وجہ سے بہت سے سمورائے، زرداروں اور سوداگروں سے قرض لیکر زندگی گزارنے لگے ۔ نئى سڑکوں اور مواصلات کے بہتر انتظام سے تجارت پیشہ افراد کو فوائد پہنچنے لگے ۔ کاروبار اور تجارت بڑھنے سے سوداگر طبقہ ترقی کرنے لگا ۔ فنِ تعمیر میں جِدت آنے لگی اور شوخ رنگوں کا استعمال بڑھ گیا ۔

قَعلوں کے اندر لکڑی کے نقش و نگار کیے گئے اور سلائڈنگ دروازے اور فولڈ ہونے والے سکرین لگائے گئے اور دیواروں کو شوخ رنگوں سے پینٹ کیا گیا ۔ ائیاسو نے اپنے دربار میں کنفیوشن ازم کو دوبارہ زندہ کیا ۔ اگرچے ہنر مندوں اور کاروباری طبقے کے پاس پیسہ بہت آگیا تھا تاہم ، معاشرے میں اُن کا مقام کسانوں سے نیچے رکھا گیا کیونکہ زراعت کو اب بھی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا تھا ۔ اگرچہ کسی وقت میں کسانوں کو طاقت کے بل بوتے پر کچل دیا گیا تھا لیکن دولت، تعلیم، اقتصادی ترقی اور بڑھتی ہوئى شہری آبادی سے نئى سماجی اور سیاسی تبدیلیاں رونما ہونے لگی تھیں اور کاروباری طبقے کے ساتھ ساتھ دانشوروں کا بھی ایک مضبوط کردار سامنے آنے لگا ۔

کبھی معاشرے کا کمزور طبقہ اب سمورائے سے زیادہ امیر ہو گیا تھا ۔ اُنیس ویں صدی تک شوگن کا اختیار اور طاقت خاصی کمزور ہوگئی تھی ۔ رُخ بدلتی شہری زندگی اور مغربی ممالک سے ملنے والی نت نئى معلومات نے روایتی معاشرے کو چلتا کردیا ۔

میجی دور

) جاری ہے(

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.