History of Japan-02
By- Afridi
تحریر و تحقیق ظاھر افریدی
میجی دور اور مغرب سے رابطے
جاپان کی تنہائى کی پالیسی تقریباً 200 سال تک جاری رہی ۔
تاریخی ریکارڈ کے مطابق، سنہ 1844 میں ہالینڈ کے حکمرانِ وقت ویلیم دوئم نے جاپان کو پیغام ارسال کیا کہ وہ اپنے بنددروازے
بیرونی دُنیا کیلئے کھول دے ، تاہم اُس وقت کے عسکری سربراہ شوگن توکوگاوا نے اِس مطالبے کو مسترد کیا ۔
تقریباً دس سال بعد سنہ 1853 میں بھاپ سے چلنے والے چار امریکی بحری جہاز ، کموڈور میتھیوپیری کی قیادت میں ایدو کے قریب لنگرانداز ہوئے ۔ جاپان نے اِن جہازوں کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا، لیکن پیری نے انکار کیا ، کہ وہ اُس وقت واپس نہیں ہونگے، جب تک وہ شہنشاہِ جاپان کو امریکی صدر کی جانب سے بھیجا گیا مراسلہ نہ پہنچائیں ۔ اِس مراسلے میں دوستی ، تجارت، کوئلے کی فراہمی وغیرہ جیسے نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا تھا ۔ امریکی کموڈور نے مراسلہ دینے کے بعد کہا کہ وہ اِس کا جواب وصول کرنے کیلئے ایک سال بعد دوبارہ دورۀ کریں گے ۔ جاپانیوں نے اُس سال کافی غور و خوص کیا کہ وہ باقی دُنیا سے کتنا پیچھے ہیں ۔
اگلے سال 31 مارچ سنہ 1854 کو کاناگاوا کنونشن کے موقع پر جب میتھیو پیری دوبارہ آیا، تو اُس وقت وہ سات بحری جہازوں کی قیادت کررہا تھا ۔ طرفین کے مابین چھ ھفتوں تک مذاکرات ہوتے رھے، اور بالاخر ایک معاہدہِ امن و دوستی دستخط کیا گیا ، اور یوں سفارتی تعلقات قائم کیے گئے ۔ یہ معاہدہ منظر عام ہونے پر برطانوی، روسی اور ولندیزی بھی مطالبہ کرنے لگے کہ اُن کے ساتھ بھی ایسا ہی معاہدہ کیا جائے ۔ 29 جولائى 1858 کو امریکہ کے ساتھ ہیریس ٹریٹی نامی معاہدہ دستخط ہوا، جس میں تجارت کے حوالے سے کئى امور پر اتفاق کیا گیا ۔ تجارت کے پہلے معاہدوں سے جاپان کواپنے غیر مُلکی تجارت اور محصولات کی پالیسوں سے دستبردار ہونا پڑا ، جس کی وجہ سے جاپان کی تجارت عدم توازن کا شکار ہوئى اور حالات مغرب کے حق میں ہوئے ، اور مزید یہ کہ اب غیرمُلکیوں کو علاقائى فوائد کے ساتھ جاپان میں رہنے کا حق حاصل ہوا، اور اُنہیں جاپانی قوانین سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ۔
چونکہ سامراجی قوتیں ایشیاء کے زیادہ تر حصے پر اپنے پنجے گاڑ چکے تھے، اِیسے میں جاپان کا اُن کے نرغے میں آنا فطری بات تھی ۔ توکوگاوا شوگن کا عائد کردہ نظام اب وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں رہا تھا، اور ایک فرسودہ نظام کی شکل اختیار کرکے روبہ زوال ہوا، کیونکہ اِسے عوامی پذیرائى بھی نہیں مل رھی تھی ۔ کچھ جاپانی دانشور مشرقی اخلاقیات اور مغربی سائنس کے امتزاج سے جِدت لانے کی وکالت کرنے لگے ۔
سمورائے اِس قِسم کے کسی بھی نظریے کی مخالفت کرنے لگے اور اُنہوں نے ، مغربی لوگوں اور مغرب نواز جاپانیوں پر حملے شروع کردئیے ۔ شوگن کی قوت بھی لڑکھڑانے لگی اور اردگرد کے جاگیرداروں سے بغاوت کی بُو آنے لگی ۔ اِس دوران کچھ علاقائى جاگیرداروں نے مغربی جہازوں پر حملے کیے ۔ جواباً مغربی قوتوں نے توپ خانے سے گولہ باری کی، اور یوں جاپانی بحری جہازوں اور جنگی صلاحیت کو ختم کرتے ہوئے برطانیہ کی پہلی فوج 1863 میں ساتسوما کے علاقائى دارالحکومت کاگوشیما پر اُتری ۔
ایک سال بعد یہی سلوک برطانوی ، فرانسیسی ، ولندیزی اور امریکی ٹاسک فورس نے چوشو بندرگاہ پر کیا ۔ شکست کے بعد سیتسوما اور چوشو کے علاقائى سرداروں نے مغربی قوتوں کے ساتھ دوستانہ روابط بڑھائے ۔ سیتسوما نے اپنی جدید بحریہ تشکیل دی ، جبکہ چوشو نے اپنے کسانوں کو مغربی فوج کی طرز پر تربیت دی اور امریکی خانہ جنگی میں بچ جانے والا اسلحہ خرید لیا ۔ اِن دونوں قوتوں نے سنہ 1866 میں ایک اچھی فوج کی شکل اختیار کرلی ۔ اِس فوج نے شوگن کی روایتی فوج کا بڑے بھرپور انداز میں مقابلہ کیا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔
سنہ 1867 میں ایک پندرہ سالہ شہنشاہ موتسوہیتو نے اقتدار سنبھالا اور اُنہوں نے سیتسوما اور چوشو سمیت جدید معاشرے کے خواہاں سرداروں کی حمایت کی اور نئے شوگن کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دیا۔ اِس اتحاد کے تحت ، شوگن سے مستعفی ہونے اور ایدو کے شمال میں واقع اُن کی جائداد کی ضبطی کا مطالبہ کیا گیا ۔ انکار پر دونوں اطراف سے حملے شروع ہوگئے ، اور جاگیرداروں کی فوجوں نے کیوتو پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا ۔ توکوگاوا کے کئى وفادار بھاگ نکلے اور شوگن کو بےدخل کردیا گیا ۔ برطانوی پیادہ فوج نے شہنشاہِ وقت کو اپنی حفاظت میں لیکرایدو میں واقع شوگن کے قَلعے میں لے گئی ۔
شہنشاہ موتسوہیتو کے دور کو دورِمیجی یعنی روشن خیال دور کہا جاتا ہے ۔ اُن کا دور 45 سالوں پر محیط ہے ، جو سنہ 1867 سے 1912 تک رہا ہے ۔ اِس دور میں جاپان نے ڈرامائى ترقی کی ۔ جاگیرداری پر قائم صدیوں پرانے نظام کو بدلتے ہوئے جاپان کو ایک عالمی طاقت بنا دیا، جو غیر مغربی ثقافت پر مبنی جدید ترقی کی ایک کامیاب مثال بنا ۔ غیر مُلکی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں ، اور طالب علموں کو اعلی تعلیم کیلئے بیرونِ مُلک بھیجا گیا۔
اصلاحات کے تحت ، سنہ 1871 میں جاگیریں ختم کرکے ، پرگنہ اور تعلقہ یعنی جاگیروں کو ریاستی ملکیت گردانا گیا ۔ سمورائے کی پنشن ختم کرکے اُن کے روایتی لباس پہننے اور تلوار لیکر چلنے کو ممنوع قرار دیا گیا ۔ تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئى اور نئے سکول تعمیر کیے گئے ۔ رہنمائى کیلئے کئى مغربی اداروں کا سہارا لیا گیا، اور فوج کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا اور جن سمورائے نے بغاوت کی کوشش کی، اُنہیں فوج سے شکست دی گئى ۔
فوجی تربیت کیلئے فرانسیسی مشیر مقرر کیے گئے ۔ قانونی نظام ، پارلیمانی ادارے ، آئین اور حکومت سازی کیلئے جرمنی ، فرانس اور امریکہ سے استفادہ کیا گیا، اور یہاں تک کہ جاگیرداری اور شوگن کے خاتمے کیلئے مغربی طاقتوں سے براہِ راست مدد لی گئى ۔
اگرچہ جاپان وہ پہلا ایشیائى مُلک تھا، جس نے مغربی طرز پر جدید معاشرہ قائم کیا تھا، تاہم ، وہ 19 ویں صدی کے جرمنی کی طرح بیک وقت قدامت پسند بھی تھا ۔ مثال کے طور پر تعلیم پر حکومت کو مکمل کنٹرول تھا، اور اِسے ریاست کیلئے اطاعت شعار ملازمین تیار کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا ۔
پریس کو سختی سے کنٹرول کیا گیا ۔ فوج کو بغیر کسی پس وپیش کے شہنشاہ کی اطاعت کرنی ہوتی تھی ۔ سپاہیوں کو یہی تربیت دی جاتی تھی، کہ میدانِ جنگ میں موت ، سب سے مقدس ہے ۔ شِنتواِزم کو بدھ اِزم اور عیسائیت پر فوقیت دی گئى کیونکہ یہ نہ صرف اصل جاپانی عقائد پر مبنی تھا، بلکہ اِس میں شہنشاہ کی اطاعت پر زور دیا گیا تھا ۔
جاپان کی سمندر پار جنگیں
طاقت ور فوج کے قیام کے بعد ، مغربی سامراجیت سے جاپان میں بھی توسیع پسندی کا رجحان پھر سے پروان چڑھنے لگا ۔ جاپانی رہنماوں کو جزیرہ نماء کوریا کھٹکتا رہتا تھا ۔ وہ چاہتے تھے، کہ یا تو کوریا مکمل طور ایک آزاد ملک بن جائے تاکہ کوئى غیر ملکی طاقت کوریا کے ذریعے جاپان پر حملہ نہ کرسکے اور یا پھر کوریا ، جاپان کے زیر تسلط آجائے ۔ اِس کیلئے ضروری تھا کہ جاپانی سرحدوں کو اصل حدود سے کہیں دور تک پھیلا دیا جائے تاکہ کسی بھی قِسم کے بیرونی حملوں کا باہر مقابلہ کیا جاسکے اوریوں مُلکی معیشت کی ترقی میں کوئى روکاوٹ نہ آئے ۔ اِس مقصد کے حصول کیلئے پہلا ہدف کوریا بنا ۔ یہ بھی کہاجاتا ہےکہ چونکہ کوریا میں کوئلے اور لوہے کے ذخائر تھے اِس لیے جاپان چاہتا تھا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کیلئے اِن وسائل سے کسی طرح سے استفادہ کرسکے ۔ کوریا اور منچوریا میں فوجی کاروائى کے سبب ہی جاپان ۔ چین پہلی جنگ یکم اگست سنہ 1894 سے17 اپریل 1895 تک ، چین کے چِن عہدِ حکومت اور میجی جاپان کے مابین لڑی گئى ۔
اُس دور میں کوریا ، چین کے زیر اثر تھا ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف سوچ اُبھرنے لگی ۔ کچھ کے خیال میں روایتی انداز سے چین کے ساتھ منسلک رہا جائے، جبکہ کچھ کا موقِف تھا ، کہ جاپان اور مغربی ممالک سے تعلق قائم کیا جائے ۔
چِن دور حکومت میں ، چین کی سلطنتِ برطانیہ کے خلاف لڑی جانے والی جنگِ افیون 1839-1842 اور 1856-1860 اور فرانس کے خلاف جنگ اگست 1884 سے اپریل 1885تک سے ، چین کمزور ہوگیا تھا اور مغربی ممالک کی جانب سے سیاسی مداخلت کو نہ روکا جا سکا ۔ شاید جاپان کیلئے یہ بہتر موقع تھا کہ وہ جزیرنماء کوریا پر چینی اثرورسوخ کو چیلنج کردے ۔
سنہ 1882 میں کوریا میں قحط آیا ۔ غذائى اجناس کی قلت پیدا ہوئى، حکومت دیوالیہ ہوگئى، قرضوں کی ادائیگی مشکل ہوئى اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے فوج ڈانواڈول ہونے لگی ۔ اِسی اثناء میں سئیول میں فوجی بغاوت بڑھک اُٹھی ، فسادات پُھوٹ پڑے، گوداموں پر حملے کیے گئے اور اگلی صبح مظاہرین نے شاہی محل کو نشانہ بنایا ۔ اُس کے بعد ہجوم نے جاپانی سفارت کاروں پر حملہ کیا ، تاہم کچھ سفارت کار ،سروے کرنے والے فلائنگ فش نامی ایک برطانوی بحری جہاز کے ذریعے نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔ جوابی اقدام کے طور پر ، جاپان نے چار جنگی جہاز اور ایک بٹالین فوج روانہ کی تاکہ جاپانی مفادات کا تحفظ کیا جا سکےاور تاوان طلب کی جائے ۔
جاپانی حملے کو روکنے کیلئے چین نے بھی 4500 فوجی روانہ کیے ۔ تاہم کشیدگی کا خاتمہ اُس وقت ہوا، جب ایک معاہدے کے تحت سازشیوں کو سزا اور مرنے والے جاپانیوں کے خاندانوں کو 500,000 ین دینے پر اتفاق ہوا ۔ جاپان سے باقاعدہ معافی مانگی گئى اور اُسے یہ اختیارحاصل ہواکہ وہ سئیول میں اپنے سفارتی عملے کے تحفظ کیلئے حفاظتی چوکیاں قائم کرے اور اپنے سیکورٹی گارڈز متعین کرے ۔
دو سال بعد ، جاپان کے حمایتی اصلاح پسندوں نے ایک خونی بغاوت میں اقتدار پر قبضے کی کوشش کی ، لیکن چینی فوج کے جنرل یوآن شیکائی کی مدد سے مخالف گروپ نے خون خرابہ کرتے ہوئے اصلاح پسندوں کو ناکام بنا دیا ۔ اِس خونی بغاوت میں کئى لوگ زندگی گنوا بیٹھے ۔ جاپان کو یہ چینی مداخلت ناگوار گزری، کیونکہ یہ چین کی جانب سے اُن کے اثر کو پنپنے سے روکنے کی ایک اور کوشش تصورکی گئى ۔ اِسی جنرل پر یہ الزام بھی تھا ، کہ اُس کے ایجنٹوں نے 28 مارچ 1894 کو شنگھائى میں جاپان نواز کوریائى انقلابی رہنماء کیم اوکیون کو قتل کیا تھا ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بعد میں مقتول کی لاش ایک چینی بحری جہاز کے ذریعے کوریا لاکر دوسرے مخالفین کو عبرت دینے کیلئے سرعام رکھی گئى ۔ جاپان کو یہ اقدام پسند نہیں آیا اور حالات میں مزید تناؤ اُس وقت پیدا ہوا جب چینی حکومت نے کوریا کے شہنشاہ کی درخواست پر تونگھاک باغیوں کی سرکوبی کیلئے فوج بھیجنے کے فیصلے سے جاپان کو آگاہ کرتے ہوئے ،جنرل یوآن کی قیادت میں 2800 فوجی روانہ کیے ۔ جاپان نے اِس بات کی مخالفت کی ، کہ یہ کنونش کی خلاف ورزی ہے اور فوج کشی کردی ۔ جاپان کے 8000 فوجیوں نے شہنشاہِ کوریا کو ہٹا کر 8 جون سنہ 1894 میں شاہی محل پر قبضہ کیا اور جاپان حمایتی گروپ کو اقتدار سونپا ۔
نئى حکومت نے چینی فوجیوں کو مُلک سے نکل جانے پر مجبور کیا اور اِسی دوران جاپان نے مزید افواج بھیج دیں ۔ جاپان کی بروقت اور کامیاب کاروائى سے اِسے بالادستی حاصل ہوئى اور معاہدۀ شیمونو سیکی کے تحت کوریا کو چین سے آزادی ملی ۔ جاپان کو تائیوان اور پیسکادوریس کے جزیروں پر قبضہ کرنے اور منچوریا کے جنوبی سر ے پر بحری اڈہ بنانے کا اختیار مل گیا ۔
کئى مغربی ممالک کو جاپان کی بڑھتی ہوئى طاقت پر حیرانی ہورہی تھی ۔ دوسری جانب روس کے شہنشاہ )زارِ روس( نکولس دوئم بھی منچوریا اور کوریا پر اقتصادی بالادستی حاصل کرنے پر کام کررہا تھا اِس لیے موجودہ صورت حال ، سلطنتِ روس اور سلطنتِ جاپان میں رسہ کشی کا سبب بنا ۔ دونوں قوتوں نے جزیرہ نماء لیاؤ دونگ ، موکدین اور کوریا اور جاپان کے سمندری علاقوں کے آس پاس اور دریائے زرد میں ایک دوسرے کے خلاف کاروائیاں شروع کیں ۔
روس کی پالیسی تھی کہ وہ اپنی بحریہ اور بحری تجارت کی غرض سے بحرالکاہل تک رسائى کیلئے گرم پانیوں کی بندرگاہ حاصل کرلے، کیونکہ روس کی ولاڈیواسٹوک کی بندرگاہ ، صرف موسم گرما میں قابل استعمال تھی جبکہ جزیرہ نماء لیودونگ کی بندرگاہ، پورٹ آرتھر سارا سال کُھلی رہتی تھی ۔ 30 جنوری 1902 کو جاپان نے برطانیہ کے ساتھ اِینگلو۔ جاپانی اتحاد کا معاہدہ دستخط کیا ۔ یہ ایک فوجی معاہدہ تھا جس سے روس اور جرمنی خطرہ محسوس کرنے لگے ۔
آٹھ فروری 1904 کو جاپانی بحریہ نے کوریا کے ساحل کے نزدیک روسی جہازوں پر حملہ کردیا ۔ پھر اُنہوں نے آرتھر بندرگاہ کا محاصرہ کیا اور بحرالکاہل میں واقع روسی بندرگاہ ولاڈیواسٹوک کی ناکہ بندی کردی ۔ یہی نہیں جاپانی فوجوں نے کوریا اور منچوریا پر بھی یلغار کردی، تاکہ سائبیریا سے آنے والی روسی فوجوں کا راستہ روکا جاسکے ۔ اِس ساری صورت حال میں چین بے بس تماشائى بنا رہا ۔ روس نے اپنے بالٹک بحری بیڑے کو حرکت دی جو یورپ اور افریقہ سے گزرتا ہوا ایشیاء پہنچا، لیکن جاپانی بحری بیڑے نے پہلے سے اپنی حکمتِ عملی تیار کرلی ہوئى تھی اور روسی بیڑے کے آتے ہی حملہ کردیا جس میں جاپان کو مکمل فتح نصیب ہوئى اور روس کے 40 بحری جہازوں میں سے صرف دو فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ۔
ایک اندازے کے مطابق ، اِس جنگ میں جاپان کے 47 ہزار سے زیادہ ، روس کے لگ بھگ 70 ہزار اور چین کے تقریباً 20 افراد لقمہ اجل بنے ۔ کہا جاتا ہے کہ اِس جنگ میں مجموعی طور پر تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے ۔ امریکی صدر روزویلٹ نے دونوں ممالک مابین پورٹسماوت کے امریکی بحری اڈے پر مزاکرات کا اہتمام کیا اور ثالث کا کردار ادا کیا ، جس کی بدولت 5 ستمبر 1905 کو ایک امن معاہدہ دستخط ہوا ۔ معاہدے میں طے ہوا کہ پورٹ آرتھر اور سخالین جزیرے کا آدھا جنوبی حصہ جاپان کے زیرِ قبضہ ہو اور کوریا کو جاپان کی کٹھ پُتلی ریاست بنا دیا گیا۔ امریکی صدر کو اِن خدمات کے صِلے میں نوبل امن انعام سے بھی نوازا گیا ۔
روسی عوام بھی زارِ روس کی بدعنوانیوں سے بددِل ہوتے گئے اور سیاسی انتشار پھیلتا گیا ۔ دہشت گردانہ حملے اور مزارعوں کے مظاہرے روز کا معمول بن گئے تھے، اور یوں انقلابِ روس کی راہ ہموار ہوتى گئى ۔ جاپان میں بھی عوامی سطح پر اِس امن معاہدے پر اعتراض کیا گیا کیونکہ وہ اِسے مہنگی فتح تصور کرتے تھے اور مطالبہ یہ تھا کہ سخالین کا پورا علاقہ جاپان کے قبضے میں آنا چاہیے تھا ۔
جاپان اب ایشیاء میں ایک نئے مشرقی طاقت کے طور پر اُبھر رہا تھا اور تجزیہ نگاروں نے اندازہ لگالیا تھا کہ اگر ایشیاء میں مغربی طاقتوں کو کوئى مُلک شکست سے دوچار کرسکتا ہے تو وہ جاپان ہی ہے ۔ جاپان کے قومی وقار میں زبردست اضافہ ہوا۔
چین اور روس کے خلاف فتوحات کے بعد ، جاپانی سامراجیت نے مزید علاقوں کی شمولیت کا رجحان اختیار کیا ۔
جنگ عظیم اول اور جاپان
جاری ہے