ایڈیٹر کی بات
جاپان کی پاکسانی برادری میں اج کل ایک ٹینشن سی چل رهی هے ، یه ٹینشن اس وقت شروع هوئی جب کچھ سال پہلے پاکستان ایسوسی ایشن کو ایمبیسی کے زیر سایه متحرک کیا گیا ،جو که فوراً هی دو تین ٹوٹے هو کر رھ گئی ، اس ایسوسی ایشن کو متحد کرنے کے لیے کچھ لوگ میدان میں آئے جن میں میاں اسرار احمد اور قدوس بھٹی کے نام قابل ذکر هیں اور ان کے ساتھ تعاون کرنے والے لوگ بھی قابل ذکرهیں جو که ان دنوں ایسوسیایشنز کے صدر تھے منتخبه کے شہزاد علی بہلم . ندا خان اور رجسٹر کے ملک حبیب الرحمان ،
مختصر یه که ایسوسی ایشنز کو تحلیل کرکے الیکشن کمیشن کے قیام کے لیے نو رکنی کمیٹی بنی جس نے چھ رکنی الیکشن کمیشن بنایا اور اس الیکشن کمیشن نے ١١ اپریل دوہزار دس کو انتخابات کروائے
یهاں تک تو معاملات بظاهر ٹھیک نظر اتے رهے لیکن انتخابات کے روز رات دیر کو رئیس صدیقی صاحب ( جو که الیکشن کمیشن کے چھ میں سے ایک رکن اور امیر تھے)کی طرف سے الیکشن میں بد نظمیوں کا کہا جانے لگا ، جس پر تکنکی معاملات کو سنبھالنے والے ڈاکٹر عمران کی طرف سے الیکشن کمیشن کے دوسرے پانچ ارکان کی حمایت کے ساتھ وضاحتیں انے لگیں ، جو که عقلی دلائل پر مبنی تھیں لیکن رئیس صدیقی صاحب نے اکیلے هی پورے الیکشن کمیشن کی طرح ایکٹ کرنا شروع کردیا اور معاملے کو مذھبی رنگ دینے کی کوشش کرتے هوئے بیانات کا تسلسل جاری رکھا
اس دوران الیکشن کمیشن کے اپنائے گئے ایک اصول کے تحت پانچ ارکان نے رئس صدیقی صاحب کو الیکشن کمیشن سے خارج کردیا
اصول یه تھا که جو رکن تین میٹنگز میں اطلاع کے باوجود نهیں شامل هو گا اس کو کمیشن سے خارج سمجھا جائے گا
جس پر رئس صدیقی صاحب نے خود کی امیر کے طور پر پیش کرتے هوئے الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کو خارج کرنے کے بیانات جاری کئے هیں .
الیکشن کمیشن کے پانچ ارکان اب ایک طرف هیں اور رئیس صدیقی صاحب ایک طرف ،
ہر دو طرف کے بیانات جاری کیے جارهے هیں ، روزنامه اخبار سائیتاما نے فیصله کیا ہے که هر دو طرف کے بیانات کو شائع کیا جائے گا اور اس پر رائے قائم کرنا قارئین کی صوابدید پر چھوڑدیاجائے گا .