ٹویوٹا کی کامیابی کا راز۔۔بِلاسودی سرمایہ کاری(آٹھویں قسط)

ٹویوٹا کی کامیابی کا راز۔۔بِلاسودی سرمایہ کاری
(آٹھویں قسط)
میں تو اس کے سودی لین دین ہی سے یہ ثابت کررہا ہوں کہ اس کی سرمایہ کاری کا سارا سرمایہ بلاسودی ہے۔ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیں تو یہ اعتراض پیدا نہیں ہوتاجوبار بار نئے نئے الفاط میں مختلف قارئین کی طرف سے کیا جارہاہے۔ میں اس جملہ کو دوبارہ دہراتا ہوں کہ میں ٹویوٹا کے سودی لین دین ہی سے یہ ثابت کررہا ہوں کہ اس کی سرمایہ کاری کا سارا کام بلا سودی ہے۔ وہ کیسے؟
حسین خاں ۔ ٹوکیو
قارئین کی دلچسپی کا شکریہ اور مترجم طاہر مجید صاحب کا بھی۔
میرے لیے یہ امر اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کرنے کاموجب بھی ہے اور باعثِ مسرت بھی کہ جاپان کے علاوہ دوسرے ملکوں، خصوصاً اسپین اور امریکہ میں بھی کچھ دوست مضامین کے اس سلسلہ کا بڑی دلچسپی سے مطالعہ کررہے ہیں اور مجھے اپنے سوالات اور اعتراضات سے نواز رہے ہیں، جو بنیادی طور پر کچھ غلط فہمیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ساتھ ساتھ طاہر مجید صاحب کا بھی میں تہہِ دل سے شکریہ ادا کرتاہوں کہ انھوں نے میرے ان مضامین کو اس لائق سمجھا کہ اسے انگریزی داں طبقہ تک بھی پہنچایا جائے اور اس نیک جذبہ کے تحت اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود ان مضامین کے انگریزی ترجمہ کا بیڑہ اٹھایا اور اس ترجمہ کی دو قسطیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس فی سبیل اللہ کام و محنت کے لیے انھیں جزائے خیر مرحمت فرمائے۔ اٰمین۔
جاپان میں ہمارے سفارت خانہ میں سفیرِ پاکستان کے بعد نمبر کادرجہ رکھنے والے ، Head of Chancery ،محترم امتیاز احمد صاحب، جو سفیر کی غیرموجودگی میں کافی عرصہ تک جاپان کے پاکستانی سفیر کے فرائض بھی ادا کرچکے ہیں، کی دلچسپی کا ذکر کرنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کا پسِ منظر یہ ہے کہ سفارتخانہ کی مختلف پارٹیوں میں ملاقات کے دوران امتیاز صاحب اکثر مجھ سے یہ کہا کرتے تھے کہ میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتا رہتا ہوں لیکن اپنے تعلیمی اختصاص کے موضوع معاشیات پر کیوں نہیں لکھتا؟میں نے انھیں یہ نہیں بتایا کہ میری ایک کتاب اس موضوع پر’’سوشلزم اور معاشی ترقی‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہے ، جس کی مولانا مودودی نے بھی پروفیسر خورشید صاحب کے نام ایک خط میں تعریف لکھی ہے۔ یہ خط ’’ خطوطِ مودودی‘‘ نامی ایک کتاب میں چھپ چکاہے۔میں نے شاید انھیں یہ بھی نہیں بتایا تھا کہ معاشی مسائل پر میرے کافی مضامینsia Times اور کراچی کے DAWN وغیرہ میں اور ان کے حوالہ سے Asian Development Bank کے انٹر نیٹ میگزین میں بھی چھپ چکے ہیں جو Google اور Yahoo میں میرے نام سے ڈھونڈھے جائیں تو اب بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔امتیاز صاحب نے مجھے بتایا کہ جیسے میں نے ٹوکیو یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم۔اے کیا ہے ،اسی طرح انھوں نے بھی لندن سے معاشیات میں ایم۔ اے کیا ہے۔ان کے بار بار احساس دلانے کی وجہ سے میرے لاشعور میں یہ خیال پیوست ہوگیا کہ مجھے معاشی مسائل پر بھی کچھ نہ کچھ اردو میں بھی لکھنا چاہیئے۔میں نے امتیا ز صاحب کو تو یہ جواب دیا کہ مذہبی، پاکستانی اور بین الاقوامی حالاتِ حاضرہ پر سرسری مطالعہ سے اخباری کالم لکھنا آسان ہے ،لیکن معاشی مسائل پر لکھنے کے لیے کافی Data اور اعداد و شمار کی ضرورت پڑتی ہے جو خاصی سنجیدہ اسٹڈی ہی سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ ایک اور دوست نے میری ایک اور غلط فہمی بھی دور کردی کہ اردو زبان کے پڑھے لکھے قارئین کو زیادہ تر لفّاظی یا جذبات نگاری کے کالم ہی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ انگریزی اخبارات و رسائل جیسے معیاری مضامین بہت کم نصیب ہوتے ہیں، اور اگرکہیں مل جائیں تو بڑے شوق اور دلچسپی سے پڑھیں گے۔ٹویوٹا سے متعلقہ میرے موجودہ مضامین کے سلسلہ کو مختلف ممالک میںپڑھا لکھا اردو داں طبقہ جس دلچسپی سے پڑھ رہا ہے ، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ علمی اور تحقیقی مضامین کی اردو داں طبقہ میں خاصی طلب موجود ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ میرے ٹویوٹا سے متعلقہ مضامین لکھنے میںامتیاز صاحب کے اس اصرار کا بڑا دخل ہے کہ میں معاشی موضوعات پر کچھ لکھتا رہوں۔ یہ خیال انھوں نے میرے لاشعور میں پیوست کردیا تھا جو اب رنگ لارہا ہے۔ اس بات کے شکریہ کے ساتھ ساتھ ان کا دوسرا شکریہ میں انھیںجس بات کا ادا کرنا چاہتاہوں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے پاکستان ایسوسی ایشن کی حلف برداری کی تقریب میں امتیاز صاحب سفارت خانہ کی نمائندگی کرنے کے لیے سفیر کے بدلہ میں معزز مہمان کے طور پر آئے ہوئے تھے۔ میں ان سے کچھ دور بیٹھا ہوا تھا۔یہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر میرے پاس خاص طور پر تشریف لائے۔میرے ٹویوٹا کے مضامین پر مجھے مبارکباد دی اور بتایا کہ انھوں نے میری بعض قسطیں دو دو بار پڑھی ہیںاور یہ کہ وہ اس سلسلہ میں مجھ سے کچھ Discuss کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا ضرور۔دونوں معاشیات کے بندے ایک ساتھ کہیں بیٹھ کر بات کریں گے تو اس موضوع کے کچھ اور اچھے پہلو سامنے آئیں گے۔ ان کی یہ دلچسپی میرے لیے باعثِ عزت افزائی ہے جس کے لیے میں ان کا شکر گذار ہوں۔
بار بار دہرائے جانے والا ایک مشکل سوال
پچھلی قسطوںمیں میری وضاحتوں کے باوجودامریکہ اور جاپان کے بعض قارئین کا اعتراض ابھی تک قائم ہے کہ ٹویوٹا میرے اعتراف کے مطابق سودی لین دین کا کام کرتی ہے تو میں اس کو بلاسودی سرمایہ کاری کیسے قرار دے رہا ہوں؟انھیں یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ میں ٹویوٹا کے سارے کاروبار کو بلا سودی قرار دے رہا ہوں۔میں اس کے سارے کاروبار کو نہیں بلکہ اس کے بلاسودی سرمایہ کاری کے شعبہ کو اسلامی تعلیم سے مطابقت رکھنے والی ٹویوٹا کی حکمتِ عملی کہہ رہا ہوں۔
ٹویوٹا والوں نے بھی یہی سوال کیا تھا۔ٹو یوٹا میں کام کرنے والوں کی تعداد 3 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اسٹاف کے ہر آدمی کو نہ تو یہ معلوم ہے اور نہ ہی وہ یہ معلوم کرنے میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے کہ سودکے ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ سرمایہ کاری سودی ہے یا بلاسودی ہے، اس سوال سے ٹویوٹا کے عام ملازمین کو اس طرح کا کوئی سروکار نہیں ہے جیسا کہ قران و حدیث میں حرمتِ سود کی انتھائی سختی کی وجہ سے ہمیں بحیثتِ ایک مسلمان کے ہے۔ وہ تو میرے جواب سے مطمئن ہوگئے تھے بلکہ خوش بھی ہوئے تھے اور ہر قسم کے تعاون کا وعدہ بھی کیا ہے ، لیکن بعض قارئین ابھی تک مطمئن نہیں ہیں ۔ شاید میری اب تک کی وضاحتوں میں کوئی تشنگی باقی رہ گئی ہے۔
سودی لین دین کرنا اور بلاسودی سرمایہ کاری دو الگ الگ نوعیت کے کام ہیں ۔ٹویوٹاکے سودی لین دین کومیں نے کبھی بھی کہیں بھی نہ حلال قرار دیا ہے اور نہ ہی اس کو متبرک یا کوئی ’اچھا‘ کام قرار دےا ہے ۔ یہ اس کا ایک الگ شعبہ ہے اور سرمایہ کاری ایک دوسرا شعبہ۔ میں ٹویوٹا کے سارے کاروبار کو بلاسودی نہیں کہہ رہا ہوں۔ میں اس کے سرمایہ کاری کے کام کو بلاسودی کہہ رہا ہوں۔ ان دونوں باتوں کو علیحدہ علیحدہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سودی کاروبار کی طرح ٹویوٹا ہوسکتا ہے کہ اور بھی کئی اچھے برے کام کررہی ہو۔یہ اپنے دوسرے اچھے برے کاموں کے ساتھ ساتھ بلا سودی سرمایہ کاری کاکام بھی کررہی ہے۔ٹویوٹا کو کامیابی کی اونچی منزل تک پہنچانے میں اور بھی سینکڑوں عوامل ہوسکتے ہیں۔ان میں ایک عامل بلاسودی سرمایہ کاری کا بھی ہے۔اس ایک عامل کے اثرات و نتائج کیا ہیں؟ اس ایک عامل نے ٹویوٹا کی ٹوسیع و ترقی میں کیا کردار اداکیا ہے؟بحیثیت ِ ایک مسلمان ہمیں اس ایک عامل کے عمل دخل سے دلچسپی ہے۔
میں تو اس کے سودی لین دین ہی سے یہ ثابت کررہا ہوں کہ اس کی سرمایہ کاری کا سارا سرمایہ بلاسودی ہے۔ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیں تو یہ اعتراض پیدا نہیں ہوتاجو اب بار بار نئے نئے الفاط میں مختلف قارئین کی طرف سے کیا جارہاہے۔ میں اس جملہ کو دوبارہ دہراتا ہوں کہ میں ٹویوٹا کے سودی لین دین ہی سے یہ ثابت کررہا ہوں کہ اس کی سرمایہ کاری کا سارا کام بلا سودی ہے۔ وہ کیسے؟
ٹویوٹا سود دیتی کم ہے اور لیتی زیادہ ہے۔ اس حقیقت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کا مطلب کیا ہوتاہے اور اس کا الٹا ہو تو اس کا مطلب کیا ہوگا؟ٹویوٹا کے برعکس نسّان اور جنرل موٹرز سود زیادہ دیتے رہے ہیں اور لیا بہت کم ہے۔ مختلف کمپنیوں کی سودی لین دین کی ترتیب اگر ایک دوسرے کی اُلٹ ہو تو اس سے ان کمپنیوںکی کونسی تصویر سامنے آتی ہے اور ان دونوں تصویروں میں کونسی بات ایک دوسرے کی اُلٹ ہوتی ہے؟
ان سب سوالوں کا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی کمپنی سود زیادہ دیتی ہے اورلیتی کم ہے یعنی اگر اس کی سودی آمدنی سودی ادائیگی سے کم ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک مقروض کمپنی ہے ۔ اس نے بہت زیادہ سودی قرضے لیے ہوئے ہیں، اس وجہ سے اس کی سودی ادائیگی بہت زیادہ ہوگئی ہے اور اس کی سودی آمدنی مقابلۃً بہت کم۔ایسی کمپنی جو بھی سرمایہ کاری کررہی ہے وہ ان سودی قرضوں سے کررہی ہے جن کے وہ سود ادا کررہی ہے۔ اور اگر معاملہ اس کا اُلٹا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ ایک مقروض کمپنی نہیں ہے بلکہ اُلٹا ایک قرض خواہ کمپنی ہے۔ جس کمپنی کی سودی ادائیگی کم ہو اور سودی آمدنی زیادہ ہو تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اس کمپنی نے سودی قرضے کم لیے ہیں اور سودی قرضے دوسروں کو بہت زیادہ دیے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اس کی سودی آمدنی ،سودی ادائیگی کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوگا کہ اس کے پاس سرمایہ اتنا فالتو ہے کہ جوکچھ وہ قرض لے رہی ہے ، اس سے کہیں زیادہ سرمایہ اپنے گاہکوں کو قرض دینے میں لگارہی ہے۔اس بات سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جس کمپنی کے پاس سرمایہ اس قدر فالتو اور اپنی ضروریات سے زیادہ وافر مقدار میں موجود ہو کہ وہ دوسروں کو قرضے دینے کی پوزیشن میں ہو تو اس کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنی سرمایہ کاری کے لیے سودی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی کا بوجھ غیر ضروری طور پر اپنے سر پر لادکر ا پنے آپ کوآبیل مجھے مار کا مصداق بنالے۔
پھر اسی بات کو آپ ایک اور زاویے سے دیکھیں تو ایک اورنیا رُخ سامنے آئے گا۔ ایسی کمپنی نے جوکچھ سودی قرضہ لیا تھا، اس سے زیادہ وہ دوسروں کو دے چکی ہے تو اب اس کے پاس سودی قرضوں والے سرمایہ میں سے ایک دھیلا بھی نہیں بچا کہ جس سے وہ کوئی سرمایہ کاری کرسکے۔اس لیے اگر وہ کسی سودی سرمایہ سے سرمایہ کرنا بھی چاہے تو اس کے پاس سودی قرضوں کا ایک دھیلا بھی نہیں رہا کہ جس سے وہ کوئی سودی سرمایہ کاری کرسکے۔ ایسی کمپنی سودی قرض کے ایک دھیلے کے بھی نہ ہونے کے باوجود اگر کوئی سرمایہ کاری کررہی ہے تووہ کسی سودی سرمایہ سے نہیں کرسکتی بلکہ کسی نہ کسی بلاسودی سرمایہ ہی سے کر رہی ہوگی۔ اس طرح سودی لین دین میں اگر کسی کمپنی کی سودی آمدنی اس کی سودی ادائیگی کے مقابلہ میں زیادہ ہو تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جوکچھ سرمایہ کاری وہ کررہی ہے ،وہ بلاسودی سرمایہ ہی سے کرسکتی ہے۔ اس طرح ٹویوٹا کے سودی لین دین ہی سے میں یہ ثابت کررہا ہوں کہ اس کی سرمایہ کاری بلاسودی ہے۔
یہ بات بھی میں دوبارہ معترضین کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ٹویوٹا کے بلاسودی سرمایہ کے حصول کے دو ذرائع ہیں۔ ایک تو % 98 نئے حصص کی فروخت ہے جس کی فروخت سے ٹویوٹا کمپنی نے بلاسودی سرمایہ حاصل کیا ہے۔ دوسرے سالانہ منافعوں کے ذخیرہ سے جو سرمایہ جمع کیا ہے وہ سب منافع کا سرمایہetained Earnings ہونے کے سبب بلاسودی ہے۔ یہ سرمایہ دس سال قبل 2000 ؁ میں 60 بلین ڈالر تھا اور اب 2010 ؁ میں 120 بلین ڈالر ہے۔ٹویوٹا جتنی چادر اتنے پاؤں پھیلاو کے اصول پر چل رہی ہے۔بنکوں یا تمسکات سے سودی قرضوں کے بجائے اس نے اپنے منافع کی جمع شدہ پونجی اور نئے حصص کی فروخت کے بلا سودی سرمایہ کی حد کے اندررہتے ہوئے اپنے کاروبار کی توسیع و ترقی کی ہے۔ اور اسی وجہ سے یہ انتھائی تیزی سے دنیا کی سب سے بڑی اور موٹر گاڑیوں کی فروخت کے معاملہ میں سب سے آگے نکلنے والی کمپنی بن گئی ہے۔
آج کے کمزور ایمان کے مسلمان اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ آج کی دنیا میں کوئی بھی کمپنی یا کوئی بھی کاروبار سودی قرضوں کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ ایسی بھی مثالیں ہیں کہ سودی قرضے لے کر اپنے کاروبار کو بڑھانے میں کامیابی حاصل کی گئی ہے۔ سارے سودی قرضے لینے والے دیوالیے نہیں ہوئے۔ کچھ بچ بھی گئے ہیں۔سودی قرضوں کے ذریعہ کامیابی کے امکان کو تسلیم کرنے کے با وجود میں ان کے خلاف محض اس لیے نہیں ہوں کہ یہ اسلامی لحاظ سے حرام ہیںبلکہ اس لیے بھی کہ اس کے ذریعہ حاصل کی جانے والی کامیابی میں وہ تیزی پیدا نہیں ہوسکتی جو ٹویوٹا جیسی بلاسودی سرمایہ کاری کمپنی کو حاصل ہوسکتی ہے۔مزید یہ کہ کبھی بھی اگر کساد بازاری کا حملہ ہوجائے تواس طرح کی بلاسودی سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیاں سودی قرضوں کے بوجھ سے پاک ہونے کی وجہ سے دیوالیہ کے خطرہ سے مکمل طور پرمحفوظ رہتی ہیں۔سودی قرضوں سے چلنے والی کمپنیوں کی طرح دیوالیہ کی تلوار ان کے سروں پر لٹکتی نہیں رہتی۔ تیسرے یہ کہ ان کے منافع کا ایک معقول حصہ گھر بیٹھے کوئی سودخور کھاتا رہتا ہے جبکہ بلاسودی سرمایہ کاری کا شرحِ منافع بھی مقابلۃً بہت بڑھ جاتا ہے اور یہ اپنے سارے منافع کو جمع کرکر کے اپنی Retained Earnings میںتیزی سے اضافہ کرتی رہتی ہے اور ہر نئے سرمایہ کاری کے موقع پر انھیں استعمال کرکے سب سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے مستعد رہتی ہے جیسا کہ عملاً ٹویوٹا نے اپنی تیز رفتار کامیابی سے ان سب خوبیوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ سودی قرضوں سے ترقی اگر کسی کمپنی نے کی بھی ہو تو وہ اس کے مقابلے میںکبھی بھی آگے نہیں آسکتی۔
اس طرح کے اعتراضات کے سبب مجھے بار بار یہ بات دہرانی پڑتی ہے کہ ٹویوٹا کا سودی لین دین کا کام تو صریح طور پرغیر اسلامی ہے لیکن ایک غیر مسلم کمپنی نے اپنے سودی اورحرام لین دین کے ساتھ ساتھ بلاسودی سرمایہ کاری کا ایک اسلامی اصول بھی اپنایا ہوا ہے۔ ایک کافر اگر اسلام کی کسی ایک بات پر عمل کرے تویہ ہمارے لیے اسلام پر اور اس کے اصولوں پر خود اعتمادی کاسبب ہونا چاہیئے، کیونکہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے اسلام کی جن باتوںکو 21 ویں صدی میں ناقابل ِ عمل سمجھتے ہیں،ن میں سے صرف ایک اصول کو اپنی پالیسی کے طور پر اختیار کرنے کے نتیجہ میں ٹویوٹا جیسی ایک غیر مسلم کمپنی تیزی سے ترقی بھی کررہی ہے اور دنیا میں نمبر ۱یک بھی بنی ہے۔اور یہ سارے خوش آئند اورہمارے لیے مثال بننے والے نتائج اسلامی اصول بلاسودی سرمایہ کاری کو اختیار کرنے کا شاخسانہ ہےں۔
(جاری ہے۔ cj@ourquran.com

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.