ٹویوٹا کی کامیابی کا راز۔۔ بِلاسودی سرمایہ کاری (نویں قسط
ٹویوٹا کی کامیابی کا راز۔۔بِلاسودی سرمایہ کاری
(نویں قسط)
حسین خاں ۔ ٹوکیو
ٹویوٹا کی طرح بزنس میں کامیابی کے طریقے ( )
عبد الرحمٰن صدیقی صاحب نے مزید ایک مسئلہ یہ چھیڑا ہے:
’’لہذا عرض ہے حسین خان اب اپنے مضمون کا رخ چھٹی قسط کے اس جملے کی طرف موڑ دیں اور اس طرف ہی زور دیںمجھے ٹوےوٹا کی سود خوری کی نہیں بلکہ اپنے مسلمان بھائےوں کی فکر ہے ۔۔۔۔۔۔۔اگر وہ سودی قرضوں کی بجائے ٹوےوٹا کی کارپوریٹ فینانسنگ پالیسی سے سبق لیکر بلا سودی سرماےہ کاری سے کام کریں تو وہ بھی ٹوےوٹا کی طرح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کامےاب کاروباری بن سکتے ہیں،،
اس سوال کا جواب بنیادی طور پر یہ ہے کہ جتنی چادر اتنے پاؤں پھیلائے جائیں کے اصول پر کاروبار کو بلاسودی سرمایہ سے کیا جائے اور اسی حد تک کے اندر کیا جائے جتناکہ بلاسودی سرمایہ مہیا ہو۔ اور بنکوں یا تمسکات کے سودی قرضوں کے ذریعے کاروبار کی توسیع اور ترقی کے طریقے کو ہرگز ہرگز اختیار نہ کیا جائے۔یہی باتیں ایک مشہورِ زمانہ کاروباری نظریہ میں پوشیدہ ہےں۔ اس نظریہ کی تفصیل میں انشاء اللہ اگلی کسی قسط میں پیش کروں گا۔ ٹویوٹا کمپنی بھی شروع ہی سے اس نظریہ پر دانستہ یا غیر دانستہ طور پر چلتی رہی ہے۔
بنکوں کے سودی نظام اور اس کے سودی قرضوں کے رواج پانے سے پہلے دنیا اسی نظریہ پر کاروبار کیے جارہی تھی۔آج میری اس بات پرلوگوں کو اتنا تعجب ہورہا ہے کہ بعض قا رئین مجھے اسپر نوبل پرائز دینا چاہتے ہیں ۔ ٹویاٹا کی بلا سودی سرمایہ کاری اور اس بنیاد پر اس کی نمبرتک جانے کی ترقی کو گویا نوبل پرائز کے لائق بات سمجھتے ہےں، حالانکہ بنکوں کے سودی قرضوں کے عام ہونے سے پہلے زمانہ قدیم سے ساری غیر اسلامی دنیا بھی کاروبار زیادہ تر بلاسودی سرمایہ ہی سے کیا کرتی تھی۔سودی قرضے انتہائی مجبوری میں انفرادی ضروریات کے لیے لینے کا رواج تھا ۔
یہ ساری بحث اس لیے کھڑی ہوگئی کہ زمانہ قدیم سے دنیا کاروباری مقاصد کے لیے سودی سرمایہ استعمال نہیںکیا کرتی تھی، جیسا کہ آجکل اس کا بہت رواج ہو چکا ہے۔ بلاسودی سرمایہ سے کاروبار کرنے کا عام رواج چلا آرہا تھا، ٹویاٹا بھی اسی اصول پر چل رہی ہے تو یہ اتنی کوئی خاص بات نہیں ہے کہ اس کی دریافت کرنے والے کو کسی نوبل پرائز کا مستحق قرار دیا جائے۔ در اصل سودی قرضوں کے بارے میں بنکوں کے نظام نے ہمارے دماغوں کو اب اتنا ماؤف کردیا ہے کہ اس کے بغیر کام کرنے والی ٹویوٹا جیسی کمپنیوں کو ہم تعجب سے دیکھنے لگے ہیں۔ہمارے مسلمان بھائیوں کوبھی اگر ٹویوٹا کی طرح کامیاب ہونا ہے تو سب سے پہلے وہ بلاسودی سرمایہ کاری کا وہ نظریہ اختیار کریں جس پر جدید دور کی ٹویوٹا ہی نہیں بلکہ ساری دنیا زمانہ قدیم سے کاروبار کرتی چلی آرہی ہے۔
زمانہ قدیم میںجوبھی سودی قرضے لیے گئے ہیں وہ سب انفرادی نوعیت کے ہوا کرتے تھے۔قدیم عراق میں سخت مٹّی کی بڑی بڑی ٹکیوں پرقرض کامعاہدہ لکھا ہوتا تھا ۔ قرض زیادہ تر اجناس کی لین دین کا ہوا کرتا تھا۔ ٹکیہ پر لکھا ہوتا تھا کہ اس ٹکیہ کے مالک کو فلاں شخص فلاں جنس کی کوئی متعین مقدار واپس کرے گا۔ یہ ٹکیاں جدید دور کے تمسّکات کی طرح قابلِ انتقال ہوا کرتی تھیں۔ یعنی ایک دوسرے کو فروخت کی جاسکتی تھیں۔ جس کے قبضہ میں یہ ٹکیہ ہو ، آخر میں وہی ادھار دی ہوئی کسی جنس کی وصولی کا حقدار ہوا کرتا تھا۔جیسے ادھار لینے والے نے اگر جَو، گیہوں یا چاول کی 300 بوریاں ادھار لیں تو اس پر تقریباً 20 فیصد سود یعنی 60 بوریاں ماہوار اس وقت تک دیتے رہنا پڑتا تھا جب تک کہ اصل ادھار لی ہوئیں 300بوریاں واپس نہ لوٹا دی جائیں۔
دورِ جدید کے ہندو بنیوں سے لیے گئے قرضوں پرسود کے بوجھ سے تنگ آکر بھارت کے لاکھوں کسانوں کی خود کشیوں کی خبریں کبھی کبھی اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں۔انسائیکلوپیڈیا ویکی پیڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق 2002 سے 2006 کے درمیان سالانہ اوسطاً 17,500 سے زائد کسانوں نے خود کشیا ں کیں۔اس کا سلسلہ 1990 کی دہائی سے جاری تھا لیکن بھارتی حکومت ان خبروں کا شروع شروع میں انکار کرتی رہی۔ آندھرا پردیش، مہاراشٹر، کرناٹک ، کیرالا اور پنجاب میں سب ے زیادہ خود کشیاں ہوئیں۔بھارتی حکومت کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (NCRB) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2008 میں 16,196 کسانوں نے خود کشیاں کیں۔اس طرح 1997 سے 2008 تک کل99,132 خود کشیاں ہوئیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صرف دس سال کے مختصر عرصہ میں تقریباً 2 لاکھ کسانوں نے خود کشیاں کیں۔ یہ ساری جانیں اس لیے تلف ہوئیں کہ ان کسانوں نے اپنی ذاتی ، زرعی اور کاروباری ضروریات کے لیے ہندو بنئیوں سے سودی قرض لینے کی ایک دفعہ غلطی کردی تھی جو سود کی وجہ سے اپنی اصل رقم سے بہت زیادہ بڑھتے چلے گئے۔ زندگی بھر محنت کرکر کے بھی یہ کسان ہندو مہاجنوں کے سودی قرض ادا نہیں کرسکے اور بلآخر خود کشی کر کے ہی ان قرضوں سے جان چھڑا نا پڑا۔
موجودہ ترقی یافتہ دور سے تو پرانا دور ہی زیادہ انسان دوست تھا کیونکہ پرانے دور میں دنیا کے قدیم ترین قانون، جو ہامورابی Hammurabi کے دور میں 1792–1750 قبلِ مسیح میں رائج کیا گیا تھا، کے تحت ہر قرضہ، جو 3 سال کے اندر واپس نہ کیا گیا ہو ،معاف کردیا جاتا تھا۔اس طرح قرضوں کی معافی کے سبب بھارت کے کسانوں کی طرح قرضداروں کو خود کشی کرنے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ اس قانون سے سودی قرض دینے والوں کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، کیونکہ وہ ان 3 سالوں کے دوران اپنی اصل سے بہت زیادہ مال0 فیصد سود کی شکل میں وصول کرچکے ہوتے تھے۔ بابل کامعروف سودی کاروبار کرنے والے Egibi خاندان کی ایسی ہزاروںٹکیاںدریافت ہوئی ہیں۔ان سے پتہ چلتا ہے کہ چھٹی صدی قبلِ مسیح سے 5 صدیو ں تک یہ خاندان سود خوری کے کاروبار سے اپنے دور میں اس دور کی مناسبت سے موجودہ دورکے Bill Gates یا Buffet جیسے دنیا کے درجہ اوّل کے دولت مندوں سے بھی بہت زیادہ دولتمند تھا۔ اس خاندان کی یہ ساری دولتمندی انفرادی قرضوں پر سود خوری کی وجہ سے تھی۔اس دور میں کاروباری مقاصد کے لیے سودی قرضے لینے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یہاں تک کہ ساتویں صدی میںاسلام کے ظہور پذیر ہونے کے وقت تک بھی اس طرح کے سودی قرضوںکا کوئی رواج نہیں تھا۔
اسی وجہ سے بعض عرب علماء نے سود کے لیے قران میں استعمال کی گئی اصطلا ح ’ربا‘ کے مفہوم کو انفرادی قرضوں Usury تک محدود کردیا ہے اور بنکوں کے سودی قرضوں کو حلال قرار دیا ہے۔ بعض علماء تجارتی ضروریات کے لیے لیئے گئے بنک کے سود کو حلال اور انفرادی ضروریات کے لیے لیئے گئے سود کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسی سود کو قرانی اصطلاح میں’ ربا ‘کہتے ہیں ، جو انفرادی ضروریات کے لیے لیا گیاہو۔ کاروباری مقاصد کے لیے لیے گئے قرضوں پر دیے جانے والے سود کو ’ربا‘ کی تعریف میں نہیں مانتے۔بنکوں کے سودی قرضوںکو جن علماء نے جائز قرار دیا ہے ،ان میں سب سے بڑا نام مصر کے جامعہ اظہر کے ریکٹرعلّامہ طنطاوی ؒ صاحب کا ہے،لیکن ان کو قطر میں مقیم عرب عا لم جناب یوسف القرضاوی جیسے دوسرے کئی عرب علماء نے مناظرہ کا چیلنج دیا۔ دن ،تاریخ بھی طئے ہوگئی لیکن عین موقع پرعلامہ طنطاوی ؒنے مناظرہ سے معذرت کرلی۔اس معذرت کو ان کے موقف کی کمزوری سمجھا گیا۔آج بھی بنکوں کے سود کو حرام قرار دینے والے علماء کا پلّہ بھاری ہے۔ چند گنے چنے علماء کے بقول بنکوں کا سودقرآنی اصطلاح ’ربا‘ کی تعریف میں نہیںآتا۔ ان کے نزدیک ’ربا‘ صرف وہ سود ہے جو انفرادی ضروریات کے لیے لی ہوئی رقم پر لیا جائے۔
V انفرادی ضروریات کے لیے لیئے گئے سود کے جو مفاسد سامنے آتے ہیں، ان کی وجہ سے اس کے حرام ہونے پر ہر مسلمان کا دل ٹُھکتا ہے۔ کاروباری ضروریات کے لیے جو سود لیا جاتا ہے اس کے مفاسد اس سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں،لیکن ان مفاسد کا عام طور پر اتنا ادراک نہیں ہے جتنا کہ انفرادی ضروریات والے سود کا ہے۔ بنکوں کے سود کے مفاسد کو سمجھنے لیے علمِ معاشیا ت کا جاننا ضروری ہے، جس سے عام آدمی بالعموم محروم ہے۔ ان گنتی کے چند محترم قدیم علماء سے اپنے حق میں فتویٰ لینے والے کے لیے سوال کرنے والوں نے دانستہ یا غیردانستہ طور پر انہیں بنکوں کے سود کے مفاسد نہیں بتائے ۔
جاپان کی 1990 کی دہائی کو ’’ ضائع شدہ دہائی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس دہائی کے ضائع ہونے کی وجہ جاپان کے ماہرینِ معاشیات جاپانی کمپنیوں کے سودی قرضوں کو قرار دیتے ہیں۔جا پانی حکومت کے سودی قرضوں کی اس کی GDP سے فیصد تناسب دنیا کے ہر ملک سے اتنا زیادہ ہے کہ-20 کے سربراہوں کی کانفرنس نے جاپان کو اس تناسب کو کم کرنے کے معاملہ پر دباؤ ڈالنے سے گریز کرتے ہوئے جاپانی حکومت پر ہی اس جنجال سے خود ہی نکلنے کی کوئی سبیل نکالنے پر زور دیا اور باقی سب نے اپنے لیے اس کمی کے لیے کوئی نہ کوئی ٹارجٹ مقررکیا۔MF کے009 کے اعداد وشمار کی بنیاد پر جاپانی حکومت کے قومی قرضوں کا اس کی GDP سے تناسب دنیا میں سب سے زیادہ18.6 تھا جبکہ امریکہ کا 84.8% تھا،اور یوروپی یونین کا8.2% تھا۔MF کے ایک اندازہ کے مطابق 2014 میں جاپان کے سودی قرضوں کا تناسب بڑھ کر 245 ہوجائے گا۔انشاء اللہ میرے آئندہ مضامین میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالوں گا کہ حکومتِ جاپان ان سرکاری تمسکات کے سودی قرضوں کے نتیجہ میںکن کن ناقابلِ حل مشکلات کا شکار ہے جو اس کی معیشت پر تباہ کن اثرات ڈال رہے ہیں ۔ اسی طرح 2008 سے اب تک جس عالمگیر کساد بازاری نے امریکہ کے مکانات کے سودی قرضوں پر فروخت شدہ Mortgages کے دیوالیوں سے شروع ہوکر امریکہ کی ایک بڑی بنک Lehman Brothers کے دیوالیہ کا سبب بنی ، ان سارے مفاسد کی بنیاد بھی بنکوں کے سودی قرضے ہیں۔ اس کساد بازاری نے یورپ اور ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میںلے لیا ہے، یورپ میں تو آئس لینڈ اور آئرلینڈ کے بعد یونان، اسپین ،پرتگال وغیرہ بعض پورے کے پورے ملک بھی بنکوں کے سودی قرضوں کے بوجھ تلے دیوالیہ کو سرحد کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ انھیں بچانے کے لیے امریکی صدر اوباما یورپ والوں کو تلقین کررہے ہیں کہ وہ بھی سب اپنی اپنی معیشت کی بحالی کے لیے امریکہ کے 70بلین کے Stimulus پروگرام کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے یورپ بھی کساد بازاری بھی روکے اور ان مقروض ملکوں کو بھی دیوالیہ سے بچائے۔ پوری یوروپین کمیونٹی اس مقصد کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہے ۔ ویسے تو سودی قرضوں سے پورے پورے ملک کیسے تباہ و برباد ہوئے اس کی بے شمار مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں۔920 کی دہائی میںeimar جرمنی جس بری طرح انتھائی مہنگائیyperinflation کا شکار ہوا۔ وہ سودی قرضوں کی لعنت کو آشکارا کرنے کے لیے کافی ہے۔ ابھیچند سال پہلے998میں روس نے اور001 میںارجنٹائین نے اپنے دیوالیہ کا اعلان کیا کیونکہ یہ دونوں ممالک کی ٹیکسوں کی آمدنی اتنی نہیں تھی کہ یہ سودی قرضوں کی اصل نہیں تو کم از کم سود ہی سالانہ اداکرسکتے۔ اب بھی پاکستان اور دیگر کئی ترقی پذیر ممالک کے بجٹ کا ایک بیشتر حصہ سود خوروں کی تجوریاں بھرنے کے لیے استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ممالک کیا معاشی ترقی کریں گے جو اپنی ٹیکسوں کی آمدنی اپنے ملک کی تعمیر و ترقی پر خرچ نہیں کرسکتے۔اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ تو سود کی ادائیگی میں دے کر اپنی اقتصادی ترقی کے لیے بار بار نئے سودی قرض لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔روس اور ارجنٹائین دوبارہاقتصادی ترقی کی راہ پر اسی وقت گامزن ہوسکے جب انھوں نے اپنے آپ کو سودی قرضوں کی لعنت سے آزاد کیا ہے، بالکل اسی طرح جیسے جنرل موٹرز اب کافی منافع پر اس لیے چلنے لگی ہے کہ اس نے اپنا دیوالیہ نکال کراپنے آپ کو سودی قرضوں سے اور اپنے کاروباری منافع کو سود کی ادائیگی کی نجاست سے آزاد کیا ہوا ہے۔
انفرادی ضروریات کے لیے لیئے گئے سود سے تو بھارت کے کسانوں کی طرح کئی جاپانی بھی خود کشی پرمجبور ہوجاتے ہیں۔اس طرح Usury کی لعنت تو واضح ہو جاتی ہے لیکن بنکوں کے سود سے تو پورے کے پورے ملک اور ان کی معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔ تعجب ہے مغربی تہذیب و تعلیم اور اس کے اقدار کے پرستار ان مسلمان ذہنی غلاموں پر جودنیا میں اس قدر تباہی مچانے والے بنکوں کے سود کوجائز اور حلال کرنے کی تعبیریں ڈھونڈھ رہے ہیں ۔اور بعض عرب علماء کی سادگی کو اپنی مغربی اقدار کی ذہنی غلامی کے لیے جواز حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انفرادی زندگیوں کو تباہ کرنے والے سود کو تو اللہ تعالیٰ حرام قرار دے اور پورے پورے ملکوں کی معیشت اور اور کروڑوں، اربوں انسانوں کو نقصان پہنچانے والے سود کو حلال کردے؟ اس لیے اکثر علماء کے نزدیک قرانی اصطلاح ’ربا‘ کے معنوں میں انفرادیsury کے علاوہ بنکوں کا سود بھی شامل ہے، اگرچیکہ اس کا رواج ظہورِ اسلام کے 6 صدیوں بعدتیرھویں صدی میںاٹلی سے شروع ہو ا اور اب 21 ویں صدی میں اپنے شباب پر ہے۔
Y تقریباً ایک سو سال پہلے بھی اس کا رواج نہیں تھا جب ٹویوٹا کے موجودہ صدر آکی اُو تویوداکے پردادا سا کی چی تویودا نے 20 ویں صدی کی اخیر893 میں پہلے لکڑی کی اور پھر خودکار کپڑابننے کی خودکار لومز ایجاد کر کے اپنے کاروبار کو توسیع و ترقی دینی شروع کی تھی اور جس کے آٹوموبائیل شعبہ کی ابتداء ان کے لڑکے ،موجودہ صدر کے دادا کی اچی رو تویودانے 1933 میں شروع کی تھی۔ اسی بلاسودی سرمایہ سے کاروبار کرنے کے رواج اور روایات کے دور میں موجودہ ٹویوٹا نے 1937 میں جنم لیا ہے، جو اسی فلسفہ اور نظریہ سرمایہ کاری پر چل کر آج دنیا کی نمبر ایک موٹر ساز کمپنی بن گئی ہے۔
r مغربی تعلیم و تربیت کے زیرِ اثر احساسِ کمتری کا شکار مسلمانوں نے ان علماء کو اپنے مطلب کا معاملہ کا صرف ایک پہلو بتایا ہے اور اس ایک پہلو کو سامنے رکھ کر ان سے اپنے حق میں فتویٰ مانگا ہے۔ ایک تو یہ کہ جدید بنکنگ اس کے بغیر نہیں چل سکتی اور دوسرے یہ کہ مسلمان بنکوں سے سودی قرضے نہ لیں تو کاروباری معاملات میں ہمیشہ غیر مسلموں سے پیچھے رہیں گے جو بنکوں سے بڑے بڑے قرضے لے کر بڑی تیزی سے اپنے کاروبار کو بڑا کرکے مسلمان کاروباری لوگوں کو اپنا دست نگر بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ اس طرح کی غلط باتیں علماء کو با ور کرواکے ان سے لوگوں نے سودی قرضوں کے حق میں فتوے حاصل کیے ہیں۔ علماء بیچارے کوئی معاشیات کے اِسکالر تو نہیں ہوتے، فتویٰ لینے والا جو پہلو ان کے سامنے رکھ دے ،وہ اس کی بنیاد پر اپنی رائے کا اظہار کردیتے ہیں۔اگر انھیں یہ بتایا جائے کی آپ کوجو باتیں باور کرائی گئیں ہیں وہ غلط ہیں اور یہ کہ بنکوں کے سود کے مفاسد اس سے کئی گنا زیادہ ہیں جو انفرادی سود کی صورت میں ہوتے ہیںتو یقینا ایسے علماء اپنی رائے سے رجوع کرلیں گے۔ میرا مسلک وہی ہے جو ہند و پاک کے اکثر و بیشتر علماء کا ہے۔ مولانا مودودی ؒ اور دوسرے بہت سارے عرب اور ہند وپاک کے علماء کا مسلک یہ ہے کہ کاروباری ضروریات کے لیے بنکوں اور تمسّکات کے قرضوں کے سود کو بھی قران و حدیث کی اصطلاح ’ربا‘ میں شامل کرکے علماء
اسلام کی عظیم اکثریت اسے بھی حرام قرار دیتی ہے۔
بنک اور تمسُّکات کا سود حرام ہے یا نہیں ہے، اس بحث سے قطع نظر یہ دیکھیں کہ سودی قرضوں سے کام کرنے والی کمپنیوں کا زیادہ تر انجام دیوالیہ ہے اور اگر دیوالیہ سے بچ بھی گئےں تو بلاسودی سرمایہ والی اسی لائین والی کمپنی سے مسابقت کی دوڑ میں جیت نہیں سکتیں۔ اس لیے حرام یا حلال کی بحث میں پڑنے سے پہلے دنیوی طور پرفائدہ مند یا نقصان دہ ہونے کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے ،تب بھی سودی قرضوں کی پالیسی نقصان دہ اور بلاسودی سرمایہ کی پالیسی فائدہ مند نظر آئےگی۔ میرے موجودہ ٹویوٹا کے مضامین کے سلسلہ کا یہی ایک بڑا مقصود ہے کہ سودی قرضوں کے بغیر بھی ٹویوٹا جیسی کمپنی گاڑیوں کی لائین میں سب سے بڑی اور سب سے مسابقت میں آگے نکلنے والی کمپنی بن سکتی ہے۔ ٹویوٹا کی
کامیابی کی مثال کو مسلمان سامنے رکھیں تو بلاسودی سرمایہ کاری کے نظریہ کی کامیابی سامنے آتی ہے۔کاروباری مقاصد کے لیے اگر بلا سودی سرمایہ کاری ایک کامیاب نظریہ ثابت ہوسکتا ہے تو ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم بنکوں اور تمسکات کے سود کو بھی حلال کرنے کی تعبیریں نکالیں ۔ اسکے برعکس ہمیں یہ خود اعتمادی پیدا کرنی چاہیے کہ اگر بنکوں کے سودی قرضوں کو بھی قرانی اصطلاح ’ربا‘ میں شامل کرلیا جائے تو مسلمان بہت سارے مفاسد سے بچ کر ٹویوٹا کی طرح کامیاب
بزنس کرسکتے ہیں۔
(آپ چاہیں تو مزید سوالات، اعتراضات اوراچھے یا برے، تنقید یا تعریف کے تبصرے درجِ ذیل ای میل پر بھیج سکتے ہیں۔) cj@ourquran.com
(جاری ہے)