ٹوکیو: حکومت نے جمعے کو بتایا کہ جاپان کے مسائل کے شکار فوکوشیما ایٹمی بجلی گھر، جو 11 مارچ کے زلزلے اور سونامی کی آفت میں تباہ ہو گیا تھا، کے باہر مٹی میں پلوٹونیم کی تھوڑی سی مقدار کا سراغ لگا ہے۔
وزارت تعلیم اور سائنس نےاپنے بیان میں کہا کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پلانٹ سے باہر حکومتی جانچوں کے دوران پلوٹونیم پائی گئی ہے، غالباً اس کی وجہ ایٹمی حادثہ ہے۔
وزارت نے کہا کہ جون میں پلانٹ کے گرد 80 کلومیٹر کے علاقے کے سروے کے دوران چھ مقامات پر پلوٹونیم کا سراغ ملا تھا۔
دوہری آفت کی وجہ سے پلانٹ کا ٹھنڈا کرنے کا نظام تباہ ہو جانے کی وجہ سے ایٹمی ری ایکٹر پگھل گئے تھے۔ پلانٹ کی عمارت، جو ٹوکیو سے 220 کلومیٹر دور واقع ہے، میں پہلے ہی پلوٹونیم کا سراغ مل چکا ہے۔
وزارت نے کہا کہ پلوٹونیم 239 اور 240 کی 4.0 بیرک فی مربع میٹر کے حساب سے سب سے زیادہ کثافت پلانٹ سے کوئی 30 کلومیٹر دور ایک قصبے میں ریکارڈ کی گئی تھی۔
45 کلومیٹر دور ایک گاؤں میں اس کی مقدار 0.82 بیکرل فی مربع میٹر تھی۔
وزارت نے کہا کہ ماحولیاتی ایٹمی تجربات کے دوران پہلے بھی جاپان میں پلوٹونیم کا سراغ لگایا جا چکا ہے۔
وزارت نے کہا کہ پلوٹونیم کی اوسط کثافت، جس کا سراغ جاپان میں 1999 اور 2008 کے دوران لیے گئے نمونوں سے لگایا گیا، 0.498 بیکرل تھی۔ فوکوشیما حادثے سے پہلے زیادہ سے زیادہ مقدار 8.0 بیکرل تک تھی۔
“اس بار سراغ لگائی جانے والی پلوٹونیم کی کثافت ماضی کی مقداروں کی حد میں ہی تھی۔ چناچہ تابکاری کی خوراک بہت کم خیال کی جاتی ہے،” وزارت نے کہا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پلوٹونیم ایٹمی ری ایکٹروں میں یورنیم سے بنتی ہے اور عموماً جسم میں عشروں تک رہتی ہے، اور اعضا اور بافتوں کو تابکاری کی زد میں لا کر سرطان کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔