نودا کا جنوبی کوریا جانے سے پہلے فوکوشیما کا دورہ

ٹوکیو: وزیر اعظم یوشیکو نودا نے منگل کو فوکوشیما سٹی کا دورہ کیا تاکہ عمارتوں و سڑکوں کو تابکاری سے پاک کرنے کے جاری عمل کا جائزہ لیا جا سکے اور فوکوشیما ایٹمی بجلی گھر کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران سے متاثرہ مقامی لوگوں کی ہمت بندھائی جا سکے۔

پچھلے ماہ عہدہ سنبھالنے کے بعد سے نودا کا یہ دوسرا دورہ تھا۔ ان کا پہلا دورہ 8 ستمبر کو ہوا تھا جب انہوں نے ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی کے تباہ حال ایٹمی بجلی گھر کا معائنہ کیا اور ٹیپکو کے 200 کارکنوں سے ملاقات کی تھی۔

وزیراعظم فوکوشیما کے گورنر یوہےئی ساتو سے ملے اور تابکار مادوں سے آلودہ مٹی اور ملبے کو ٹھکانے لگانے کے طریقوں پر بات چیت کی، جو کہ نزاعی مسئلہ بنتا جا رہا ہے چونکہ دوسرے صوبے تابکاری کے خدشات کی وجہ سے فوکوشیما سے ملبہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔

نودا نے ساتو کو بتایا کہ حکومت کے تیسرے ضمنی بجٹ، جس کے بارے میں حکومت کو امید ہے کہ 28 اکتوبر سے قابل عمل ہو جائے گا، میں تابکاری سے صفائی کے کام کے لیے 250 بلین ین شامل ہوں گے۔ ٹی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے کہا کہ  تابکاری سے صفائی میں ترجیح ان علاقوں کو دینی چاہیے جہاں بچے ہیں جیسا کہ اسکول، کھیل کے میدان اور پارکس۔

انہوں نے بطور وزیراعظم اپنی افتتاحی نیوز کانفرنس میں کہے گئے الفاظ کو دوہرایا کہ “فوکوشیما کے احیا کے بغیر جاپان کا احیا ممکن نہیں۔ ساری دنیا اس بحران کو قابو کیے جانے کے انتظار میں ہے۔ یہ جاپان کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے۔”

11 مارچ کے سونامی نے ٹوکیو سے 220 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع فوکوشیما ڈائچی ایٹمی بجلی گھر کے کولنگ سسٹم کو تباہ کر دیا تھا، جو ری ایکٹروں کے پگھلاؤ، دھماکوں اور ماحول میں تابکاری کے اخراج پر منتج ہوا۔ یہ پلانٹ فوکوشیما شہر سے قریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

اہلکاروں کی بحران کے نتائج سے نمٹنے کی کوششوں سے اٹھتے عوامی یقین کے دوران حکومت نے کہا ہے کہ پلانٹ کے قریب کچھ علاقے خطرناک آلودگی کی وجہ سے برسوں تک ناقابل رہائش رہ سکتے ہیں۔

پلانٹ کے گرد 20 کلومیٹر کے رداس میں رہنے والے دسیوں ہزار لوگوں اور اس کے پار بھی کئی علاقوں سے لوگوں سے گھر خالی کروا لیے گئے تھے، لیکن بہت سے ایکٹیوسٹوں اور سائنس دانوں نے اس سے بھی وسیع داخلہ بند علاقے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ دورہ نودا کے لیے ایک مصروف دن کا آغاز تھا۔ منگل کی رات، وہ ٹوکیو واپس آئیں گے اور جنوبی کوریا روانہ ہوں گے جہاں کئی معاملات ان کی توجہ کے متقاضی ہیں، جیسے 1910 سے 45 کے دوران جاپان کے نوآبادیاتی دور میں کوریا سے لائی گئی تاریخی کورین شاہی کتابوں کی کئی جلدوں کی واپسی، بحر جاپان کے جزائر پر موجود علاقائی حدود کا جھگڑا، آزاد تجارت کا معاہدہ، ایک ایکسچینج پروگرام اور شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام پر چھ فریقی مذاکرات کا پھر سے آغاز۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.