ناراہا: جاپان کے سونامی زدہ ایٹمی بجلی گھر کو چلانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ ہزاروں کارکنوں کے لیے حالات میں بہتری پیدا ہوئی ہے اگرچہ مرکز کو بند کرنے میں عشروں کا وقت لگ سکتا ہے۔
11 مارچ، جب پلانٹ سونامی کی وجہ سے تباہ ہوا اور اس میں پگھلاؤ اور دھماکے ہوئے، کو حادثہ ہونے کے بعد سے کارکنوں کی حفاظت ایک اہم مسئلہ رہی ہے۔ ایک موقعے پر پلانٹ سے تابکاری کا اخراج اتنا زیادہ ہو گیا کہ چند درجن کارکنوں کے سوا سب کو وہاں سے نکالنا پڑا جسے فوکوشیما 50 کا نام دیا جاتا ہے۔
مرکز، جس کے بارے میں حکومت کے ایک پینل نے اس ماہ اعلان کیا کہ اسے بحفاظت سبکدوش کرنے میں 30 سال سے زیادہ کا عرصہ لگ سکتا ہے، کے اندر کام کرنا اب بھی انتہائی پرخطر ہے۔
لیکن ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی (ٹیپکو) کے اہلکار کہتے ہیں کہ پلانٹ اب اتنا مستحکم ہو چکا ہے کہ 3300 کارکنوں کو روزانہ اندر آنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ پچھلے کئی مہینوں کے دوران، انہوں نے اس کے ٹھنڈا کرنے کے نظام کو بحال کیا ہے جو ری ایکٹروں کے درجہ حرارت کو خاصا کم اور مستحکم رکھتا ہے، اس کی عمارتوں اور مشینری کی مرمت کی ہے، اور تابکاری سے پاک کرنے کے افعال سرانجام دئیے ہیں۔
“ہم اس بحران کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہے ہیں،” ٹیپکو کے ترجمان یوشیمی ہیتوسوگی نے کہا۔ اہنوں نے کہا کہ ٹیپکو نے تخمینہ لگایا تھا کہ پلانٹ کی حالت اتنی بہتر ہو گئی ہے کہ جے ویلج کے پڑاؤ کے علاقے کو کھول دیا جائے اور جاپانی و عالمی میڈیا کو ہفتے والے دن پلانٹ کے اندر آنے کی اجازت دی جائے۔
“ہمارا یقین ہے کہ شفافیت کا ہونا بہت ضروری ہے،” ہیتوسوگی نے کہا۔
پلانٹ کے اندر کام کرنا اب بھی پرخطر ہے چونکہ حادثے کے پہلے دو ہفتوں میں خارج ہونے والا تابکار مادہ، جو چار سب سے زیادہ متاثرہ ری ایکٹروں سے خارج ہوا، بڑی مقدار میں اندر موجود ہے۔ فوکوشیما ڈائچی ایٹمی بجلی گھر چھ ری ایکٹروں پر مشتمل ہے، لیکن ان میں سے دو سونامی ٹکرانے کے وقت بند تھے۔ تین چلنے والے ری ایکٹر پگھل گئے تھے۔
پلانٹ کی مرمت کرنے والے کارکنوں کی تعداد کم پڑ جانے کے خوف سے جاپان نے تابکاری کی اجازت یافتہ حفاظتی حد دوگنی سے بھی زیادہ بڑھا دی تھی۔ حکومت نے حد اور بڑھانے پر غور کیا تھا، لیکن بعد میں حالات کی ابتدائی سنگینی کم ہو جانے کے باعث اسے ترک کر دیا گیا۔ تابکاری کے باعث کوئی کارکن ہلاک نہیں ہوا، اگرچہ کچھ کارکنوں کو سالانہ حد سے زیادہ تابکاری وصول کرنے پر درج کیا گیا ہے۔
ٹیپکو نے تسلیم کیا ہے کہ وہ ایٹمی سانحے کے لیے پوری طرح تیار نہیں تھی، جو چرنوبل کے 1986 کے حادثے کے بعد بدترین حادثہ ہے۔
اس کے پاس مناسب تعداد میں حفاظتی لباس یا تابکاری کی حد جانچنے والے ڈوزی میٹر نہیں تھے تاکہ کارکنوں کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے جن کی اسے بجلی گھر کی بگڑتی حالت کو قابو سے باہر ہونے سے روکنے کے لیے اشد ضرورت تھی۔
ٹیپکو کی تیاری اسی بات سے عیاں تھی کہ اس نے بحران سے نمٹنے کے لیے عارضی ہنگامی مرکز کا قیام پلانٹ کے گرد واقع 20 کلومیٹر کے داخلہ بند علاقے کی حد پر موجود قصبے کے بےڈھنگے، گھاس اُگے اسپورٹس کمپلیکس جے ویلج میں کیا۔
بحران کے ابتدائی مراحل میں، کارکنوں کو جو تھوڑی بہت نیند ملتی تو انہیں فرش پر سونا پڑتا اور ڈبہ بند کھانا کھانا پڑتا۔ ٹیپکو کا کہنا ہے کہ کارکنوں کے پاس اب وافر مقدار میں سامان ہے، وہ عارضی مکانوں میں سوتے ہیں، کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور ان کے اوقات کار بھی اتنے سخت نہیں ہیں۔ تابکاری سے صفائی اور تابکاری کی مقدار جانچنے کی سہولیات کو بھی معقول حد تک بہتر بنایا گیا ہے۔
قومی فٹبال ٹیم کا سابقہ تربیتی مرکز اب بھی کسی فوجی اڈے کا سا سماں پیش کرتا ہے۔
اس کے 12 فٹ بال گراؤنڈز اب ہیلی کاپٹروں کے اترنے یا بھاری سامان اور ہنگامی گاڑیوں کے لیے پارکنگ کی جگہ ہیں۔ حفاظتی لباس، جسے صرف ایک بار پہنا جاتا ہے اور اس کے بعد تابکاری سے متاثرہ گنا جاتا ہے، کے قریباً 480,000 سیٹ ہر وقت جی ویلج کے گراؤنڈز میں محفوظ رہتے ہیں۔ ایک کمرے کے قریب ایک گھڑی 2:46 پر ساکت ہے، وہ وقت جب زلزلے کا پہلا جھٹکا لگا۔
“یہاں کا ماحول پہلے کی نسبت بہت بہتر ہوا ہے،” 56 سالا توشیرو لینوما نے کہا جو سپروائزر ہیں اور انہوں نے ٹیپکو کی ایک ذیلی ٹھیکیدار کمپنی میں رہ کر پلانٹ پر 39 سال کام کیا ہے۔ “میرا خیال ہے یہ پہلے سے بہت زیادہ مستحکم ہے۔ لیکن ہمارے سامنے ابھی طویل راستہ باقی ہے۔ ہم اب بھی ٹھیک طرح سے نہیں جانتے کہ کس چیز کی توقع رکھیں۔”