زبان کی رکاوٹ سے انڈونیشی نرسیں لڑکھڑا گئیں

پتا چلا ہے کہ 2008 میں طے پانے والے نرسنگ لائسنس حاصل کرنے کے دوطرفہ شراکت کے معاہدے کے تحت جاپان آنے والی 104 نرسوں میں سے آدھی سے زیادہ نرسیں وطن واپس لوٹ چکی ہیں، اور اس کی بڑی وجہ جاپانی زبان کی درکار شرائط ہیں۔

ای پی اے پروگرام کے تحت، انڈونیشی نرسوں کو تین سال تک جاپانی ہسپتالوں میں معاون نرسوں کا کام کرنے کی اجازت ہے جو داخل مریضوں کا خیال رکھتی ہیں۔ اس پروگرام کی شرائط کے تحت تین سالہ قیام کے دوران ایک سالانہ نیشنل نرسنگ سرٹیفکیٹ ٹیسٹ پاس کرنا ہوتا ہے۔

تاہم، انڈونیشیا سے جاپان آنے والی 104 نرسوں کے پہلے گروپ میں سے صرف 15 نے یہ نیشنل ٹیسٹ پاس کیا ہے۔ اسی طرح بعد والے 58 نرسوں کے ایک گروپ میں سے صرف چار نرسیں فروری میں واپس جاپان آ کر امتحان دیں گی، جس کا مطلب ہے کہ باقیوں نے جاپان میں ملازمت ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

جب 2008 میں پہلا بیچ آیا تھا تو قومی امتحان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، چونکہ غیر جاپانی درخواست دہندگان امتحان میں استعمال کیا جانیوالا پیچیدہ کانجی رسم الخط نہ پڑھ سکنے کی وجہ سے فوائد سے محروم رہتے تھے۔

مثال کے طور پر، “جوکُوسو” (ناسور پلنگ) کا لفظ اکثر جاپانی بھی کانجی رسم الخط میں لکھا ہونے پر پڑھ نہیں سکتے، اور یہ امتحان میں موجود تھا۔

اس تنقید نے وزارت صحت، محنت اور ویلفئیر کو پچھلے سال امتحان مزید سادہ کرنے کی شہہ دی۔

حکومت کا فلپائن کے ساتھ بھی ایک ای پی اے پروگرام ہے، جس کے تحت فلپائنی نرسیں جاپان میں کام کرنے کے قابل ہیں۔ حکومت اسی طرح کی اسکیم ویتنام میں بھی متعارف کروانے کا سوچ رہی ہے۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.