اوتسو؛ جاپان کی ایٹمی توانائی کی صنعت نے کبھی بھی سوسمو تاکاہاشی جیسے لوگوں کے دل و دماغ جیتنے کے لیے روپیہ یا وقت خرچ نہیں کیا، جو یاماگاچی کی جھیل بیوا کے کنارے میٹھے پانی کی مچھلی شکار کرنے والا ایک ماہی گیر ہے، جو کہ ایٹمی ری ایکٹر والی کسی بھی دنیا سے کوسوں دور ہے۔
شیگا جیسے صوبے، جہاں ایٹمی صنعت کو کبھی بھی سرگرمی دکھانے کی ضرورت نہیں پڑی لیکن وہ ری ایکٹروں سے اتنا قریب واقع ہیں کہ ان سے پریشان ہو سکتے ہیں، حکومت اور ایٹمی صنعت کی طرف سے ایٹمی توانائی کو پھر سے چلانے کی کوششوں کے لیے سخت قسم کی پیچیدگی کا باعث بن کر ابھر رہے ہیں۔
ابھی تک وزیر تجارت یوکیو ایدانو، جو توانائی کا قلمدان بھی سنبھالتے ہیں، نے اپنی توجہ ان صوبوں پر مرکوز رکھی ہے جو ایٹمی ری ایکٹروں کی میزبانی کرتے ہیں، ایسے علاقے جو عشروں کے روزگار اور صنعت و حکومت ہر دو کی طرف سے فراخ دلانہ سبسڈیز کی وجہ سے روایتی طور پر ایٹمی توانائی کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔
کانسائی کی مقامی حکومتوں کی یونین، جو بجلی کی بچت کے اہداف مقرر کرنے میں ملوث ہے، حکومت اور علاقے کی ایٹمی یوٹیلیٹی، کانسائی الیکٹرک پاور کو کی طرف سے یقین دہانیوں کے باوجود لا قائل نظر آتی ہے کہ قریب ہی واقع فوکوئی کے ری ایکٹر بحفاظت انداز میں چلائے جا سکتے ہیں۔
فوکوئی اور ایٹمی پلانٹس کی میزبانی کرنے والے دوسرے صوبوں کی بجائے شیگا محسوس کرتا ہے کہ وہ ایٹمی توانائی کے خطرات کا سامنا تو انہیں کی طرح کرتا ہے لیکن اس کے اگر کچھ فوائد ہیں تو، انہیں کم حاصل کرتا ہے۔ پلانٹس کے قریب رہنے والی آبادیاں 2012، 2013 میں ایٹمی بجلی گھروں سے متعلق ٹیکسوں یا سبسڈیز کی صورت میں 20 ارب ین وصول کریں گی۔
کانسائی الیکٹرک، جو فوکوئی صوبے کے مکینوں میں بڑی سرگرمی سے طے شدہ ری اسٹارٹ کے بارے میں پروپیگنڈہ کر رہا ہے، کہتا ہے کہ اس کے ری ایکٹروں کے نزدیک رہنے والے لوگ دور رہنے والوں کی نسبت مختلف برتاؤ کا حق رکھتے ہیں۔