پیرس: 8 ویں صدی کے اواخر میں زمین کائناتی شعاعوں کے پر اسرار جھماکے کی زد میں آئی تھی، یہ بات جاپانی سائنسدانوں نے کہی جنہوں نے دیودار کے درختوں میں اس طاقتور واقعے کی نشانی ڈھونڈ نکالی ہے۔
اس ٹیم نے سائنسی جریدے ‘نیچر’ کی اتوار کی اشاعت میں بتایا کہ دو قدیم درختوں کے تجزیے سے کاربن 14-کاربن کا ہم جاء جو کائناتی تابکاری سے وجود میں آتا ہے- کی بڑی مقدار کا پتا چلا ہے جو 774 قبل مسیح سے 775 قبل مسیح کے مابین وجود میں آیا۔
زمین پروٹان اور دوسرے ذیلی ایٹمی ذروں کی بوچھاڑ کی زد میں رہتی ہے، جو خلا میں توانائی کے عظیم ذخائر سے وجود میں آئے ہوتے ہیں۔
یہ ذرات کرّہ قائمہ کے ساتھ ٹکراتے ہیں اور نائٹروجن کے ساتھ تعامل کر کے کاربن 14 کی تخلیق کا باعث بنتے ہیں، جو بعد میں حیاتیاتی کرّے (کرّہ ہوائی کا وہ حصہ جہاں جانور اور پودے رہتے ہیں) میں جذب ہو جاتا ہے۔
ناگویا یونیورسٹی کے فوسا میاکی کی سربراہی میں قائم ٹیم نے دریافت کیا کہ دیودار کے مذکورہ دو درختوں میں کاربن 14 کی مقدار 774 اور 775 قبل مسیح کے برسوں میں دوسرے برسوں کے مقابلے میں 1.2 فیصد زیادہ تھی۔
یہ شاید کوئی زیادہ مقدارنہ لگے، تاہم کاربن 14 کے پس پردہ انجذاب کے مقابلے میں یہ فرق بہت زیادہ ہے۔
کائناتی شعاعوں کا ایک ماخذ سورج بھی ہے، جس کی سرگرمی مختلف مراحل میں گھٹتی بڑھتی رہتی ہے جنہیں شوابے سائیکلز کا نام دیا جاتا ہے۔