سنگاپور: جیسے جیسے امریکہ ایشیا میں اپنی فوجی پوزیشن کو سہارا دینے کی طرف بڑھ رہا ہے، اسے کانگریس کی جانب سے بجٹ میں کمی، طاقتور ہوتے حریف چین اور بھڑوں کے چھتے جیسے حساس علاقائی سیاسی معاملات کا سامنا ہے۔
امریکی پالیسی میں تبدیلی ایشیا اور بحر الکاہل کو اس کی تزویراتی فہرست میں اول مقام پر لا کھڑا کرتی ہے اور اس کے پیچھے یہ خدشات بھی کار فرما ہیں کہ چین دنیا کے سب سے زیادہ معاشی طور پر متحرک علاقے میں آگے بڑھ گیا ہے جبکہ امریکہ عراق اور افغانستان کی جنگیں ہی لڑتا رہ گیا۔
“ان کے عظیم معاشی مواقع کی وجہ سے یہ فطری امر ہے کہ بہت سے ممالک چین اور امریکہ دونوں سے اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں،” انڈونیشی صدر سوسیلو بامبانگ یودھیونو نے سنگاپور میں منعقدہ ایک تین روزہ کانفرنس سے خطاب میں کہا، جو اتوار کو ختم ہوئی۔ تاہم جب واشنگٹن کہیں اور جنگیں کر رہا تھا اور ایشیا میں نسبتاً غیر متحرک تھا تو چین اپنی فوجی طاقت کو بڑے پیمانے پر بہتر بنا رہا تھا۔
ماضی میں چین کے بارے میں پائے جانے والے خدشات تائیوان پر اس کے دعوؤں تک محدود رہتے تھے، جسے وہ اپنا بھگوڑا صوبہ گردانتا ہے۔ تاہم اب یہ خدشات مزید وسیع ہو گئے ہیں چونکہ بیجنگ جنوبی بحر چین میں اپنے دعوؤں پر زیادہ سے زیادہ جارحانہ انداز اختیار کر رہا ہے، جہاں اس کے آدھی درجن دوسرے ممالک کے ساتھ علاقائی تنازعات چل رہے ہیں۔
ان سب حالات میں امریکی کوشش یہ ہے کہ وہ نہ صرف علاقے میں اپنی فوجی اور سیاسی موجودگی میں اضافہ کرے بلکہ کسی سیاسی حریف کو اس پر انگلی اٹھانے کا موقع بھی نہ دے۔