جاپان کے ایٹمی قصبوں میں بحران سے نمٹنے کے منصوبے اب بھی سست روی کا شکار

ٹوکیو: اگر اوئی ایٹمی ری ایکٹر فوکوشیما جیسے پگھلاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں، تو بھاگنے کا اکلوتا راستہ پہاڑوں پر ٹنگا، تیز ہواؤں والا ایک راستہ ہو گا جو اکثر سرما میں برفباری اور گرما میں سمندرکی وجہ سے بند رہتا ہے۔

مغربی جاپان میں ایسا کوئی تابکاری بھرا حادثہ ملک کے سب سے بڑے تازہ پانی کے ذخیرے جھیل بیوا کو آلودہ کر دے گا جو 14 ملین سے زیادہ لوگوں کو پانی فراہم کرتی ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے مرکزی اور مقامی حکومتی اہلکاروں اور ایٹمی نگران اداروں کے انٹرویو سے پتا چلا ہے کہ ملک کے 48 ری ایکٹروں کے گرد واقع آبادیوں نے ایٹمی ری ایکٹروں کے گرد انخلائی زون بنانے کے منصوبے کی مطابقت میں ابھی تک کچھ نہیں کیا۔

“اگر ایک اور بحران آتا ہے تو ہمارے پاس بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا، مغربی جاپانی صوبے شیگا میں بحران سے نمٹنے کے ایک اہلکار نے کہا۔ اس صوبے کا کچھ حصہ اوئی پلانٹ کے گرد واقع (مجوزہ) انخلائی علاقے میں آتا ہے۔ مقامی آبادیوں کو چھ ماہ کے اندر اپنے منصوبے وضع کرنے ہیں۔ 2006 میں عالمی ایٹمی ایجنسی کی سفارش کردہ 30 کلومیٹر کے انخلائی علاقے کی تجویز نافذ کرنے کی کوشش نیوکلیر اینڈ انڈسٹریل سیفٹی ایجنسی کے اہلکاروں نے یہ کہہ کر رد کر دی تھی کہ اس سے “کنفوژن پیدا ہو گی اور عوام میں ایٹمی حفاظت پر خدشات پیدا ہوں گے”۔

ایہائم، جو جنوب مغربی جاپان میں ایکاتا ایٹمی پلانٹ کے تین ری ایکٹروں کا گھر ہے، میں اہلکار انخلائی منصوبے کو تازہ کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، “ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہ کر ڈر نہیں سکتے”۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.