ٹوکیو: جاپان کے سیاسی پہلوان اچیرو اوزاوا، جو حکمران جماعت کو اقتدار میں لانے والی کلیدی شخصیات میں سے ایک تھے، پارٹی کے درجنوں قانون سازوں کو لے کر الگ ہو گئے، تاہم حکومت پارلیمان کے ایوان زیریں میں اپنی اکثریت برقرار رکھے گی۔
درحقیقت 70 سالہ اوزاوا اور ان کے پیروکاروں کے چلے جانے سے اوزاواکو اپنی تقسیم شدہ پارٹی پر گرفت بہتر کرنے اور اپوزیشن کے ساتھ معاہدے کرنے کا موقع ملے گا، جو ایوان بالا میں اکثریت کی حامل ہے اور قانون سازی کے عمل میں تعطل پیدا کر سکتی ہے۔
اس کے بعد 480 اراکین پر مشتمل ایوان زیریں میں حکمران جماعت کے اراکین کی تعداد 289 سے کم ہو کر 249 رہ گئی ہے۔
کیودو نیوز ایجنسی نے کہا کہ نظر ثانی شدہ تعداد کے مطابق پارٹی چھوڑنے والے اراکین کی تعداد 50 ہے جبکہ دو اراکین نے بعد میں کہا تھا کہ وہ پارٹی نہیں چھوڑ رہے۔
اوزاوا، جن کی چھوٹی پارٹی 2003 میں اس وقت کے اپوزیشن ڈیموکریٹس میں مدغم ہوئی تھی، نے کہا ہے کہ ٹیکس میں پلان شدہ اضافہ ڈیموکریٹس کی جانب سے تین سال قبل الیکشن مہم میں کیے جانیوالے وعدوں کی خلاف ورزی ہے، جن میں ٹیکس بڑھانے سے قبل طاقتور بیوروکریسی کو قابو کرنے اور فالتو اخراجات کم کرنے کے وعدے شامل تھے۔
بہت سے لوگ بھی ایک ایسے وقت میں ٹیکس بڑھائے جانے سے پریشان ہیں جب پچھلے سال کی تہری مصیبت بڑے زلزلے، سونامی اور ایٹمی بحران کی وجہ سے جاپان بحالی کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہے۔
تاہم نودا، جو سابقہ وزیر خزانہ تھے، نے زور دیا ہے کہ جاپان کے مالیاتی معاملات کو سیدھا کرنے اور تیزی سے عمر رسیدہ ہوتی آبادی کی بڑھتی ہوئی ویلفیئر لاگتوں کو پیسہ فراہم کرنے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے۔
نودا نے کہا تھا کہ وہ سیلز ٹیکس بڑھانے کے لیے اپنا سیاسی کیرئیر بھی داؤ پر لگا دیں گے اور انہوں نے ایسا کیا بھی۔