نیروبی: مشرقی افریقی ملک کینیا کی قانونی ایڈوائزری نے پچھلے ہفتے کہا کہ کینیا نے کئی ممالک سے کہا ہے کہ وہ بیرون ملک اکاؤنٹس میں جمع بدعنوانی کے روپے کے واپس حصول میں اس کی مدد کریں، تاہم تمام ممالک راضی نہیں ہوئے۔
بدعنوانی نے مشرقی افریقہ کی سب سے بڑی معیشت کے عکس کو کئی دہائیوں تک داغدار کیے رکھا ہے اور بہت سے کینیائی باشندے ان کوششوں کو جعلی اور غیر موثر خیال کرتے ہیں۔
کینیا کے اٹارنی جنرل گیتھو موئی گائی نے کہا کہ چار علاقے سوئٹرز لینڈ، جاپان، برطانیہ اور جرسی، جو کہ سمندر پار بینکنگ کے لیے برطانیہ کا ماتحت ہے، اس کام میں تعاون کے لیے راضی ہوئے ہیں۔
موئی گائی نے ممباسا کے ساحلی شہر میں بینکرز کی ایک کانفرنس کو بتایا، “ان حکومتوں سے ہم نے جو مدد مانگی ہے اس میں ہمیں معلومات کی فراہمی، دستاویزات کی فراہمی اور عدالتی دستاویزات تک رسائی شامل ہے جہاں کچھ مقدمات چل چکے ہیں”۔
انہوں نے کہا، “یہ بہت اچھا جا رہا ہے اور ہمیں امید ہے کہ سال کے آخر تک ہم ان جگہوں سے روپیہ وصول کرنا شروع کر دیں گے جہاں اس کا کوئی دعویدار موجود نہیں چونکہ یہ روپیہ کینیا کو واپس ملنا چاہیے”۔
موئی گائی نے کہا کہ دو ممالک سے مدد مانگی گئی تھی لیکن انہوں نے ابھی تک مدد کا وعدہ نہیں کیا ہے۔