جاپان نے چین کی فوجی پالیسی کے کردار کو ممکنہ خطرے کے طور پر نشان زد کر دیا

ٹوکیو: جاپان نے منگل کو چینی خارجہ پالیسی میں فوج کے بڑھتے ہوئے کردار کو سیکیورٹی رسک قرار دے دیا، اور کہا کہ خطے میں بیجنگ کی بظاہر فوجی توسیع کے حوالے سے پورے مشرقی ایشیا میں محتاط طرز فکر پایا جاتا ہے۔

ایک اخبار نے مزید تفصیل میں جائے بغیر کہا کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ خارجہ پالیسی پر فوجی اثر و رسوخ کا درجہ تبدیل ہو رہا ہو۔

علاقائی تنازعات، جن میں جنوبی بحر چین میں جاپان کے ساتھ عرصہ دراز سے جاری تنازع بھی شامل ہے، کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ٹوکیو کے خیالات نے 2011 میں اس اخبار کی رپورٹ سے اتفاق کیا جس میں عالمی اسٹیج پر چین کے بڑھتے ہوئے کردار کا خیر مقدم کیا گیا تھا، تاہم چین کے زیادہ جارحانہ اقدامات پر بھی تشویش ظاہر کی گئی تھی۔

وزیر دفاع ساتوشی موریموتو نے کہا کہ یہ محتاط طرز فکر علاقے کے بہت سے ممالک میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے۔ موریموتو نے نامہ نگاروں کو بتایا، نہ صرف جاپان بلکہ پورے مشرقی ایشیا میں چین کے ممکنہ راستے پر ایک محتاط طرز فکر پائی جاتی ہے۔

چینی وزارت دفاع کے ایک ترجمان نے ملک کی معیاری پالیسی لائن دوہرائی کہ اس کی فوجی جدت نہ صرف شفاف ہے بلکہ اس کا مقصد کسی دوسرے ملک کو نقصان پہنچانا نہیں۔

تاہم ترجمان گینگ یانشینگ نے کچھ بے نام جاپانی اہلکاروں کی جانب سے مشرقی بحر چین میں جزیروں کے تنازع پر “غیر ذمہ دارانہ بیانات” کو تنقید کا نشانہ بنایا، جنہیں جاپان میں سینکاکو اور چین میں داؤ یو کہا جاتا ہے، اور کہا کہ چین اپنے حقوق کا دفاع کرے گا۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.