ہیروشیما: سوناؤ تسوبوئی کے چہرے پر ہیروشیما پر بمباری سے زخموں کے مندمل نشانات ایٹم کی طاقت کی سنگدلانہ انداز میں یاددہانی کرواتے ہیں، جبکہ مابعد فوکوشیما کے جاپان میں ایٹمی توانائی پر چوکسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکی طیارے کے ہاتھوں ایٹمی دور کا مہلک ترین ہتھیار چھوڑے جانے کے فوراً بعد ہی قریباً ایک لاکھ چالیس ہزار افراد یا تو جہنمی حرارت سے نابود ہو گئے یا آنے والے دنوں اور مہینوں میں تابکاری کے ہاتھوں مٹ گئے۔
قریباً سات عشروں کے بعد تسوبوئی، جو دنیا کے اولین ایٹمی حملے کے گنے چنے بچ جانے والوں میں سے ایک ہیں، ملک میں ایٹمی توانائی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں جو اب بھی مارچ 2011 کے زلزلے و سونامی سے آنے والی مصیبت سے باہر آنے کے لیے ڈگمگا رہا ہے۔
87 سالہ تسوبوئی نے فوکوشیما بحران سے متاثر ہونے والوں سے مخاطب ہو کر کہا، “ایٹمی متاثرین ہونے کے ناطے ہم ایک ہی ہیں”۔
“میرے ذہن کے مطابق فوکوشیما، ہیروشیما اور ناگاساکی کے بعد جیسے تیسرا ایٹمی شکار ہے۔”
ایٹم بم سے بچ جانے والے 70 سالہ توشیوکی میماکی نے اضافہ کیا: “ہم فوکوشیما کے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں اور مزید ایٹمی شکار نہ بننے دینے کے لیے مل کر آواز بلند کرنا چاہتے ہیں”۔
“یہ حادثہ دیکھنے اور حکومت کی جانب سے اس سے نپٹنے کا طریقہ دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ مجھ سے دھوکا کیا گیا ہے۔”