ٹوکیو: ٹوکیو کی جنگ عظیم دوم میں شکست کے قریباً سات عشروں بعد بھی تلخ یادیں اور حالیہ رقابتیں اس کے چین اور جنوبی کوریا کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا کر رہی ہیں، جو ایک ایسے وقت میں بگاڑ کا سبب بن سکتی ہیں جبکہ تینوں ممالک قیادت میں تبدیلی کے عمل سے گزرنے والے ہیں۔
تینوں ممالک گہرے اقتصادی تعلقات میں بندھے ہوئے ہیں، جبکہ جاپان اور جنوبی کوریا امریکہ کے قریبی اتحادی ہیں۔
تاہم جبکہ جاپان بدھ کو جنگ اور اپنے ہمسایہ ممالک پر تسلط کے خاتمے کی 67 ویں برسی منا رہا ہے، سئیول کے ساتھ چٹانی جزیروں پر موجود عشروں پرانا فساد اس وقت تیز ہو گیا جب جنوبی کوریا کے صدر لی میونگ باک نے پچھلے ہفتے اس علاقے کا دورہ کیا۔
“اور نہ ہی چین اور جنوبی کوریا ان معاملات کو ہاتھ سے جانے دینا چاہتے ہیں چونکہ یہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔”
سئیول کے ساتھ جاری تنازع اولمپکس میں بھی گھُس آیا تھا جب ایک جنوبی کوریا فٹ بال کھلاڑی نے جاپان کو کانسی کے تمغے کے لیے ہرانے کے بعد “ڈوکڈو ہمارا علاقہ ہے” لکھا ہوا کتبہ بلند کیا، جنہیں جاپان تاکے شیما کہتا ہے۔
اگرچہ جاپان اور جنوبی کوریا کے مابین اقتصادی تعلقات اور ثقافتی تبادلوں میں حالیہ برسوں میں اضافہ ہوا ہے، تاہم جاپان کے 1910 تا 1945 نوآبادیاتی تسلط پر کوریا میں اب بھی گہری ناراضگی پائی جاتی ہے۔