ٹوکیو: جمعہ کو جاپانی ایٹمی توانائی مخالف مظاہرین نے ٹوکیو کی جانب سے قریباً سات دہائیاں قبل ہتھیار ڈالنے کی برسی منانے کے چند ہی دن بعد، دوسری جنگ عظیم کی دہشت کی یاد تازہ کی۔
ہزاروں مارچ کرنے والوں نے ہفتہ وار ریلی کے دوران دارالحکومت کی سڑکوں پر مارچ کیا اور وزیر اعظم کے دفتر اور پارلیمان گئے تاکہ حکومت پر ایٹمی توانائی استعمال کرنے کی پالیسی ترک کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکیں۔
یہ ریلی بدھ کو جاپان کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کی 67 ویں برسی کے بعد منعقد ہوئی ہے۔ جاپان نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی ایٹمی حملے کے بعد ہتھیار ڈالے تھے۔
“میں آج یہاں اس لیے آیا ہوں چونکہ میں بچوں کی زندگیوں اور مستقبل کے بارے میں پریشان ہوں،” ایک بوڑھے آدمی نے پارلیمان کے قریب مائیکروفون پکڑے ہوئے کہا۔
اس نے کہا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے ایٹمی توانائی کا استعمال جاری رکھنے کا اقدام اسے دورانِ جنگ ٹوکیو کی مطلق العنان حکومت کی یاد دلاتا ہے، جس نے عام افراد کو فوج میں بھرتی ہونے اور انہیں غربت کے سائے تلے سخت حکومتی کنٹرول میں رہنے پر مجبور کیا۔
“اس وقت جاپان کے لوگ حکومت اور بڑے کاروباروں سے احکامات وصول کرتے تھے جنہوں نے ان کی زندگیوں کو حقیر سمجھا،” اس نے کہا۔
“ایٹمی بجلی گھروں کے ساتھ اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت اور بڑے کاروبار لوگوں کو زندگیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں،” اس نے کہا۔
مجمع نے وزیر اعظم یوشیکو نودا کے دو ایٹمی ری ایکٹر دوبارہ چلانے کے فیصلے کے خلاف نعرے لگائے، جو پچھلے سال فوکوشیما پر ایٹمی بحران پیدا ہونے کے بعد سے تمام ری ایکٹروں کے ہمراہ بند پڑے تھے۔
اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر کے تخمینے کے مطابق مظاہرے میں لوگوں کی تعداد، جسے ہر جمعے کو ایٹمی توانائی مخالف ایکٹوسٹ زیادہ تر آنلائن منظم کرتے ہیں، 1000 سے زیادہ تھی۔