بیجنگ: جاپان اور شمالی کوریا نے بدھ کو چار برسوں میں پہلی بار آمنے سامنے مذاکرات کا آغاز کیا جبکہ سفارتکار جائزہ لے رہے ہیں کہ وہ مسائل سے پُر تاریخ پر قابو پانے کے لیے ابتدائی کام کی بنیاد رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔
ٹوکیو کو شمالی کوریائی ایجنٹوں کی جانب سے ماضی میں اغوا کیے گئے اپنے شہریوں کے مقدر کے بارے میں مزید سوالات پوچھنے کی چاہت ہے، جبکہ اسے شبہات ہیں کہ پیانگ یانگ اپنے پاس موجود تمام تر معلومات مہیا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ شبہات بھی موجود ہیں کہ پیانگ یانگ کے ایجنٹوں نے اعتراف شدہ تعداد سے زیادہ جاپانی شہریوں کو اغوا کیا ہو۔
جاپان کہتا ہے کہ جب دونوں اطراف نے 2008 میں ملاقات کی تو شمالی کوریا نے اغوا شدہ جاپانی شہریوں کا مقدر جاننے کے لیے دوبارہ تفتیش شروع کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
دریں اثنا، اگرچہ شمالی کوریا جاپان کے ساتھ تجارت کی درخواست کرتا ہے، لیکن امریکہ کے ساتھ اس کے اتحاد، 20 ویں صدی کے پہلے نصف میں جزیرہ نما کوریا پر نو آبادیاتی تسلط اور جاپان میں نسلاً کوریائی لوگوں سے سلوک کی بنا پر اسے تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔
کورین سنٹرل نیوز ایجنسی جو شمالی کوریا کا میڈیا بھونپو ہے، نے منگل کو ایک تبصرے میں ماضی میں نوآبادیاتی تسلط پر جاپان پر تنقید کی۔