حکومت مخلوط توانائی پالیسی کے ذریعے دونوں اطراف کی ناراضی کا خطرہ مول لے رہی ہے

جاپانی حکومت کی جانب سے ایسی مخلوط توانائی پالیسی، جو فوکوشیما بحران کے بعد ووٹروں کے بڑھتے ہوئے ایٹمی توانائی مخالف جذبات کو مطمئن کر دے لیکن طاقتور ایٹمی توانائی نواز مفادات رکھنے والوں کو بھی ناراض نہ کرے، بنانے کی کوششیں دونوں اطراف کو مطمئن نہ کر سکنے کے خطرے کا شکار ہو رہی ہیں۔

پچھلی توانائی پالیسی گذشتہ برس کی آفت، جو 25 برسوں میں بدترین ایٹمی حادثہ تھا اور جس میں زلزلے و سونامی نے فوکوشیما ایٹمی بجلی گھر پر پگھلاؤ پیدا کیا اور اسے تباہ کر دیا، کے بعد ترک کر دی گئی تھی۔

کیودو نیوز ایجنسی نے رپورٹ کے مسودے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت 2030 تک جاپان کا ایٹمی توانائی پر انحصار 15 فیصد تک کم کرنے کی متلاشی ہو گی، جو موجودہ ایٹمی ری ایکٹروں کی عمر 40 برس تک محدود کرنے اور کسی نئی تعمیر کی اجازت نہ دے کر کیا جائے گا۔

جاپانی الیکٹرک پاور کمپنیوں کی تنظیم نے ایک بیان میں ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان کی 2030 تک ایٹمی توانائی ختم کرنے کی تجویز کے پرخچے اڑاتے ہوئے کہا، “ہمارے جیسے کم وسائل یافتہ ملک کی مستقبل کی توانائی پالیسی کے لیے جو چیز ضروری ہے وہ متنوع فیہ ذرائع توانائی کو استعمال میں لانا ہے جن میں ایٹمی توانائی بھی شامل ہے”۔

حکومت نے اس ہفتے تخمینہ لگایا تھا کہ فوری طور پر ایٹمی توانائی ترک کرنے کا مطلب ہوگا کہ توانائی پیدا کرنے کے لیے سالانہ 3.1 ٹریلین ین کا ایندھن درآمد کرنا پڑے گا۔

آپ کومنٹ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.