اوساکا: اوساکا کے مئیر تورو ہاشیموتو نے قومی سطح پر اقتدار کے حصول کے لیے بدھ کو باضابطہ طور پر ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھ دی، جس کے بارے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ سلگتے ہوئے قوم پرستانہ جذبات پر دستک دے رہی ہے، بالکل جیسے جاپان کو چین اور جنوبی کوریا کے ساتھ بڑھتے ہوئے پُر کھنچاؤ تعلقات کا سامنا ہے۔
ہاشیموتو نے اپنی مقامی سیاسی جماعت کو قومی سطح کی جماعت میں بدلنے کا اعلان کرنے کے بعد اوساکا میں چندہ جمع کرنے کی ایک تقریب میں حمایتیوں کے ہجوم کو بتایا، “ہمارا عظیم ملک جاپان زوال کی حالت میں آ چکا ہے”۔
ٹوکیو کی صوفیہ یونیورسٹی کے پروفیسر کوئیچی ناکانو نے کہا، “وہ یقیناً جاپانی سیاسی منظر نامے کو مزید دائیں بازو کی جانب دھکیل رہے ہیں”۔ ہاشیموتو کی سیاسی جماعت، جو ساتویں جماعت ہو گی، جلد متوقع انتخابات پر اثر انداز ہو سکتی ہے، جس میں ڈیموکریٹس کی فتح کے امکان کم نظر آتے ہیں۔ انہوں نے پہلے ہی ڈی پی جے اور دوسری جماعتوں سے سات قانون سازوں کو اپنی جانب کھینچ لیا ہے، اور مزید ان کی پیروی کر سکتے ہیں۔
ہاشیموتو کے ممکنہ اتحادیوں میں سابق وزیر اعظم شینزو ایبے شامل ہیں، جو 26 ستمبر کو مرکزی اپوزیشن لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) کے سربراہی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
نیہون یونیورسٹی کے پروفیسر توموآکی ایوائی نے کہا، “اگر ہاشیموتو کی جماعت 100 سے زیادہ نشستیں حاصل کرتی ہے، تو ایل ڈی پی اس کے ساتھ اتحاد کر سکتی ہے”۔ “اگر یہ صرف 60 سے 70 نشستیں حاصل کرتی ہے، تو ایل ڈی پی، ڈی پی جے کی حمایت کر سکتی ہے”۔
دوسرے کہتے ہیں کہ ہاشیموتو، جن کا بیرونی اسٹیٹس زیادہ تر فریب نظر سے باہر آنے والے ووٹروں کے عشق سے ماخوذ ہے، مرکزی دھارے کی جماعتوں سے اتحاد سے پرے رہیں گے اور اپنا الگ مقام بنائیں گے۔ دوسرے اس سے اتفاق نہیں کرتے۔