ٹوکیو: نیشنل پولیس ایجنسی کمشنر یوتاکا کاتاگیری نے جمعرات کو اپنے پچھلے موقف سے خجل کن پسپائی اختیار کی اور اعتراف کیا کہ پولیس نے سائبر دھمکیوں کے سلسلے میں جن چار لوگوں کو حراست میں لیا ان کے کمپیوٹر بظاہر ہیک شدہ تھے۔
ٹوکیو اور اوساکا، مئے اور کاناگاوا کے صوبوں میں واقع متاثرہ کمپیوٹروں کے ذریعے مختلف اہداف بشمول ایک اسکول اور ایک کنڈرگارٹن، جہاں شہنشاہ اکی ہیتو کے پوتے پوتیاں پڑھتے ہیں، کو دھمکی آمیز ای میل بھیجی گئی تھیں۔
کمپیوٹر مالکان کو گرفتار کر کے ایسے نظام میں زیر حراست رکھا گیا، ایک کیس میں تو کئی ہفتوں تک، جہاں حراست کی صورتحال دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی نسبت سخت ہے اور جہاں پولیس اعترافی بیانات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔
جاپان کا قانونی نظام اعترافی بیانات کو بہت اہمیت دیتا ہے، اور پراسیکیوٹر عام طور پر ایسے کیس لینے پر تیار نہیں ہوتے جن میں مشتبہ پہلے اپنے قصور کا اعتراف نہ کر لے۔
ناقدین اس پر حملہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ نظام زیادتیوں کے لیے کھلا ہے اور پولیس کو اختیار دیتا ہے کہ وہ لوگوں کو بنا کسی الزام کے لمبے عرصے تک قید میں رکھ سکے۔