اُلان باٹور: سینئر جاپانی اور شمالی کوریائی سفارت کاروں نے جمعہ کو اپنی بات چیت ختم کر دی، جبکہ اطلاعات تھیں کہ وہ مستقبل کی ملاقات پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔
جی جی پریس کے مطابق، جاپانی مذاکرات کار شینسوکے سوگیاما نے کہا کہ دونوں اطراف نے شمالی کوریا کی جانب سے ماضی میں جاپانی شہریوں کے اغوا کے مسئلے پر “مزید سوچ بچار” کے لیے مکالمہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
سوگیاما نے جمعرات کی رات، سات گھنٹے کے سیشن کے بعد، جاپانی رپورٹروں کو بتایا، “اگرچہ صلاح مشورہ بھی کوئی آسان معاملہ نہیں ہے، تاہم دونوں اطراف نے صدقِ دل سے اپنے اپنے موقف کا تبادلہ کیا ہے”۔
2002 میں پیانگ یانگ نے تسلیم کیا تھا کہ اس کے ایجنٹوں نے 1970 اور 1980 کے عشروں میں جاپانی شہری اغوا کیے تاکہ وہ اس کے جاسوسوں کو جاپانی زبان اور روایات کی تعلیم دے سکیں۔
اپنے طور پر شمالی کوریا یہ موقف رکھتا ہے کہ جاپان نے جنگی زیادتیوں کی پوری تلافی نہیں کی ہے۔
یہ مذاکرات اگست میں بیجنگ میں درمیانے درجے کے جاپانی اور شمالی کوریائی سفارت کاروں کے مابین قبل ازیں ہونے والی ملاقات کے بعد ممکن ہو سکیں۔
“آپ جانتے ہیں کہ جاپان، شمالی کوریا اور دوسرے ممالک اس معاملے پر بات چیت کے لیے منگولیائی زمین پر آ سکتے ہیں۔”