واشنگٹن: اپنی انتخابی مہم میں امید اور تبدیلی کا پیغام دینے والے لیڈر باراک اوباما نے جب پہلی مرتبہ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھا تو انہوں نے امریکہ اور ابھرتے ہوئے چین کے مابین تعاون کے نئے شعبوں پر زور دیا تھا۔
چار برس بعد اوباما اپنی دوسری مدت اس طرح شروع کر رہے ہیں کہ ان کی انتظامیہ امریکی اتحادی جاپان کے ساتھ ایک علاقائی تنازع کے معاملے میں چین کے خلاف سخت موقف اپنائے ہوئے ہے، جس پر بیجنگ نے ان کی مدت کے باضابطہ آغاز کی شام ہی سخت نکتہ چینی کی۔
یہ تبدیلی اوباما کی چین کے لیے پالیسی میں دھیرے دھیرے آنے والے تغیر کی غماز ہے، جہاں کچھ تجزیہ نگار نوٹ کرتے ہیں کہ بیجنگ نے امریکہ کو زوال پذیر سمجھ کر زیادہ پُر اصرار موقف اختیار کر لیا تھا۔
مرکز برائے اسٹریٹیجک و عالمی مطالعات میں چین کے ماہر بونیے گلاسر نے کہا کہ کلنٹن نے –بیجنگ کا نام لیے بغیر– یہ کہہ کر، کہ امریکہ چینی افعال کی مخالفت کرتا ہے، تبدیلی کا اشارہ دیا تھا۔
چین کے حوالے سے اپنے کچھ تازہ ترین تبصروں میں جان کیری (نئے وزیرِ خارجہ) نے ستمبر میں ایک قراردار متعارف کروائی تھی جس میں دلائی لاما کے سابق ایلچی کو “تبت میں جبر کی دیواریں ٹکڑے ٹکڑے کر دینے” پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔