ٹوکیو: الجیریا میں مغویوں کے بحران نے بیرونِ ملک فوجی اقدام پر لگی پابندیاں نرم کرنے کے شائق جاپانی قدامت پسندوں کو اسلحہ فراہم کر دیا ہے، تاہم جنگِ عظیم کے بعد عدم تشدد کی حامی وراثتی پالیسی (و آئین) وزیرِ اعظم شینزو ایبے کو ہوشیاری سے قدم اٹھانے پر مجبور کر رہی ہے۔
ایبے، جو پہلے ہی دائیں بازوں کے قوم پرست کا لیبل رکھتے ہیں، طیران پذیر ووٹروں –جن کی اولین ترجیح کساد بازاری کا شکار معیشت کی بحالی ہے– کو پریشان کرنے سے محتاط لگتے ہیں، اور 10 جاپانیوں کی اموات کو بظاہر اپنے وسیع تر، عقابی سیکیورٹی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
1947 کے امریکہ کے تیار کردہ عدم تشدد کے حامی آئین کی حدود پھیلانے کے لیے جاپان کئی عشروں سے کوشاں رہا ہے — جس کی اگر صحیح معنوں میں تشریح کی جائے تو وہ فوج رکھنے کی بھی ممانعت کرتا ہے۔
10 جاپانی ان زیادہ تر غیر ملکی 38 مغویوں میں شامل تھے جنہیں اسلامی عسکریت پسندوں کی جانب سے الجیریا کے صحرائی گیس کمپلیس کے چار روزہ محاصرے کے دوران ہلاک کر دیا گیا اور مزید تین جاپانی شہری لاپتہ ہیں۔
“پچھتر فیصد عوام نے مسٹر ایبے یا ان کی ایل ڈی پی کو پسند نہیں کیا،” ایجیما نے رائٹرز کو ایک انٹرویو میں بتایا۔ “ایبے کابینہ کی ایک ذمہ داری ہے کہ وہ 75 فیصد کی رائے کو مدِنظر رکھیں، ” انہوں نے کہا۔ “میرا خیال ہے کہ مسٹر ایبے اسے سمجھتے ہیں۔ چناچہ آئین پر نظرِ ثانی دور کی بات ہے”۔